Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 56
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ
وَيَحْلِفُوْنَ : اور قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَمِنْكُمْ : البتہ تم میں سے وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ مِّنْكُمْ : تم میں سے وَلٰكِنَّهُمْ : اور لیکن وہ قَوْمٌ : لوگ يَّفْرَقُوْنَ : ڈرتے ہیں
اور خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اصل یہ ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں۔
56۔ 57۔ اللہ پاک نے یہاں سے منافقوں کی ایک اور دغابازی کی حالت کی تفصیل شروع فرمائی کہ یہ لوگ قسمیں کھاکھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں تمہارے دین پر ہیں اور خدا و رسول کے ہر طرح سے فرمانبردار ہیں لیکن یہ غلط بات ہے ان کی قسمیں محض جھوٹی ہیں یہ ہرگز تمہارے گروہ میں سے نہیں ہیں انہیں دین اسلام سے کیا واسطہ خدا و رسول کے حکم کی پیروی سے انہیں کیا سروکار یہ تو خوف کے مارے اسلام کا اظہار کرتے ہیں جانتے ہیں کہ جس طرح مشرکوں کو مسلمان قتل و غارت کرتے ہیں ان کی بی بی بچوں کو پکڑ لیتے ہیں ان کے مال غنیمت میں لوٹ لیتے ہیں اسی طرح کہیں ہم سے بھی نہ پیش آئیں غرض کہ اسی سبب سے یہ لوگ جھوٹے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں حقیقت میں یہ مسلمان نہیں ہیں اگر انہیں کوئی بچاؤ کی صورت نظر آئے مثلا کوئی قلعہ مل جائے جس میں پناہ لیں یا کوئی غار یا گڑھا یا اور کوئی چھپنے کی جگہ مل جائے تو یہ لوگ اسی طرح بھاگیں کہ پھر کبھی کسی مسلمان سے واسطہ نہ رکھیں انہیں اسلام کے ساتھ دلی بغض ہے اسلام کی ترقی سے بجائے خوشی کے ہمیشہ رنج پہنچتا رہتا ہے یہ جو مسلمانوں کے ساتھ ملتے جلتے ہیں نہایت ناخوشی سے ملتے ہیں محبت اور شوق سے نہیں ملتے ہیں اپنی جانوں کے خوف سے ظاہری میل جول رکھتے ہیں ورنہ انہیں کب گوارا ہے کہ یہ اسلام کی ترقی دیکھیں۔ معتبر سند سے ترمذی مستدرک حاکم وغیرہ میں زیدبن ارقم ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات کہی کہ اس لڑائی کے سفر سے مدینہ کو واپس جانے کے بعد مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جاویگا۔ تو آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر اس بات کی صداقت کا حال دریافت کیا عبداللہ بن ابی نے بہت سی قسمیں کھائیں اور اس بات کے کہنے سے صاف انکار کیا اس کی ان قسموں کو جھوٹا ٹھہرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون کی آیتیں نازل فرمائیں اس آیت میں منافقوں کی جھوٹی قسموں کا جو ذکر ہے یہ قصہ گویا اسی کی تفسیر ہے سورة حشر میں اللہ تعالیٰ نے ایمان دار انصار کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ ان کے دلوں میں مہاجرین کی پوری الفت اور محبت ہے سورة حشر کی ان آیتوں اور بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت کے قصہ کو ملانے سے اس آیت کی تفسیر کا یہ حاصل قرار پاتا ہے کہ یہ منافق جھوٹی قسمیں کھا کر زبرستی اپنے آپ کو مسلمانوں کے گروہ میں شریک کرتے ہیں ورنہ حقیقت میں یہ لوگ مہاجر اور انصار مسلمانوں کے دونوں گروہ کے مخالف ہیں مہاجرین سے تو انہیں یہاں تک مخالفت ہے کہ ان کا مدینہ میں رہنا انہیں شاق گزرتا ہے رہے ایماندار انصار ان کی نشانی مہاجرین کے ساتھ محبت کا برتاؤ ہے نہ مخالفت کا اس صورت میں یہ منافق مسلمانوں کی ساری جماعت سے خارج اور الگ ہیں۔
Top