Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
فقیر اور مسکین کسے کہتے ہیں ؟ قول باری ہے (انما الصدقات للفقراء والمساکین۔ یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں) تا آخر آیت۔ زہری کا قول ہے کہ فقیر وہ ہوتا ہے جو سوال کرے اور مسکین وہ ہوتا ہے جو سوال نہ کرے۔ ابن سماعہ نے امام ابو یوسف سے اور انہوں نے امام ابو حنیف سے فقیر اور مسکین کی شرعی تعریف میں اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسکین کی حالت زیادہ کمزور ہوتی ہے اور فقیر کی بہ نسبت اس پر فقرو تنگدستی کا زیادہ دبائو ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حسن، جابر بن زید، زہری اور مجاہد سے مروی ہے کہ فقیر اسے کہتے ہیں جو خود داری کی بنا پر دست سوال دراز کرنے سے پرہیز کرتا ہو اور مسکین وہ ہے دو دست سوال دراز کرتا ہو۔ اس طرح امام ابوحنیفہ کا قول ان حضرات سلف کے قول کے مطابق ہوگیا۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف، تعرفھم بسیماھم لایسئلون الناس الحافاً ۔ خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنے ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوشحال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں) اللہ تعالیٰ نے انہیں فقراء کے نام سے موسوم کیا اور ان کی یہ صفت بیان کی کہ ان میں خود داری ہوتی ہے جس کی بنا پر دست سوال دراز نہیں کرتے۔ قتادہ سے مروی ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جو ہاتھ پائوں سے معذور ہو نیز حاجتمند ہو۔ اور مسکین وہ ہے جو ہاتھ پائوں کے لحاظ سے تندرست ہو۔ ایک قول کے مطابق فقیر اور مسکین دونوں کا مدلول ایک ہی ہے۔ لیکن اس مدلول کو دو صفات کے ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ صدقہ کے استحقاق میں اس کا معاملہ اور موکد ہوجائے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن کرخی رحمہ الہل کہا کرتے تھے کہ مسکین وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو اور فقیر وہ ہے جس کے پاس گزر اوقات کا کم سے کم وسیلہ موجود ہو۔ یہی بات ابو العباس ؓ سے بھی نقل کی جاتی ہے۔ ابو العباس نے کہا ہے کہ ایک شخص سے منقول ہے کہ اس نے ایک بدوی سے پوچھا۔ ” تم فقیر ہو “ ؟ جواب میں اس نے کہا۔ ” نہیں، میں مسکین ہوں۔ “ پھر اس نے ابن الاعرابی کا یہ شعر سنایا : اما الفقیر الذی کانت حلویتہ وفق العیال فلم یترک لہ سبد فقیر تو وہ شخص ہے جس کی دودھ دینے والی اونٹنی اتنا دودھ دے دے جو اس کے اہل و عیال کے لئے کافی ہو اور اس میں سے کچھ نہ بچے۔ شاعر نے اسے دودھ والی اونٹنی کا مالک ہونے کے باوجود فقیر کے نام سے موسوم کیا۔ محمد بن سلام الجمی نے یونس نحوی سے نقل کیا ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس گزارے کا تھوڑا بہت سامان ہوتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف) اس پر دلالت کرتا ہے کہ فقیر گزارے کے تھوڑے بہت سامان کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ناواقف آدمی صرف اسی صورت میں اسے غلطی سے غنی سمجھے گا جب وہ ظاہری طور پر ٹھیک ٹھاک ہوگا اور لباس وغیرہ بھی درست ہوگا یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ گزارے کے تھوڑے بہت سامان کی ملکیت اس سے فقر کی صفت کو سلب نہیں کرتی ہے۔ ابو الحسن کرخی مسکین کی تعریف کے سلسلے میں اپنے قول کے لئے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے استدلال کرتے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے (ان المسکین لیس بالطواف الذی تردہ التمرۃ والتمرتان والاکلۃ والاکلتان ولکن المسکین الذی لایجد مایفتیہ۔ مسکین وہ نہیں ہوتا جو بہت زیادہ پھیرے لگاتا ہو، جو ایک یا دو کھجور اور ایک یا دو لقمے لے کر واپس ہوجائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس گزر اوقات کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ ابو الحسن کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے اس شخص سے جو ایک یا دو کھجور لے کر واپس ہوجائے۔ فقر و مسکنت کی انتہا کی نفی فرمادی اور اس فقر و مسکنت کی انتہا کو اس شخص کے لئے ثابت کردیا جس کے پاس کچھ نہ ہو اور پھر اسے مسکین کے نام سے موسوم کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ فقیر کی بہ نسبت مسکین کی حالت زیادہ ابتر ہوتی ہے۔ ابو الحسن کے قول کے مطابق اس مفہوم پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (اومسکینا ذا متربۃ یا خاک آلود مسکین) اس کی تفسیر میں ایک روایت ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو بھوک کے مارے زمین سے چپکا پڑا ہو، نیز اس کے تن من پر اتنا کپڑا بھی نہ ہو جو اس کے جسم کو خاک آلود ہونے سے بچا سکتا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ مسکین کے اندر انتہائی درجے کی تنگدستی اور حاجتمندی پائی جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (اما السفینۃ فکانت لما کین یعملون فی البحر رہ گئی کشتی تو وہ چند مساکین کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کشتی کی ملکیت ثابت کردی اور اس کے ساتھ انہیں مسکین کے نام سے بھی موسوم کردیا اس کے جواب میں کہا جائے گا ہ ایک روایت کے مطابق یہ لوگ مزدور تھے کشتی کے مالک نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کی ان لوگوں کی طرف اس لئے نسبت کردی کہ وہ اس میں تصرف کرتے اور کشتی ہی میں رہائش پذیر تھے جس طرح قول باری ہے (لاتدخلوا بیوت النبی۔ نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو) ایک اور جگہ ارشاد ہوا (وقرن فی بیوتکن اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھروں کی اضافت کبھی تو حضور ﷺ کی طرف کردی اور کبھی ازواج مطہرات کی طرف، اب یہ بات تو واضح ہے کہ یہ گھر یا تو حضور ﷺ کی ملکیت تھے یا ازواج مطہرات کے، کیونکہ ایک ہی حالت میں ان گھروں کی ملکیت حضور ﷺ اور ازواج مطہرات کے لئے ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک کی ان گھروں پر الگ الگ ملکیت کا ثبوت محال ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تصرف اور رہائش کی بنا پر یہ اضافت درست ہوگئی۔ جس طرح کہا جاتا ہے۔ ” ھذا منزل فلان “ (یہ فلاں کا گھر ہے) یہ فقرہ درست ہے خواہ وہ شخص اس کا مالک نہ بھی ہو لیکن اس میں رہائش رکھتا ہو۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ ” ھذا مسجد فلان “ (یہ فلاں کی مسجد ہے) حالانکہ مسجد پر اس کی ملکیت نہیں ہوتی۔ قول باری (اما السفینۃ فکانت لمساکین) بھی ان ہی معنوں پر محمول ہے۔ ایک قول کے مطابق فقیر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ضرورت مندی اور حاجت کی وجہ سے اس کی حالت اس شخص جیسی ہوتی ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔ کہا جاتا ہے (فقر الرجل فقراً “۔ (آدمی فقیر ہوگیا) ” افقرہ اللہ الفقالا “ (اللہ تعالیٰ نے اسے فقیر بنادیا) تفاقر تفاقراً (اس نے فقیری ظاہر کی) مسکین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حاجتمندی اسے ساکن کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ دوڑ دھوپ کرکے اپنی روزی کے لئے وسیلہ تلاش کرسکے۔ فقیر اور مسکین کے درمیان فرق کے سلسلے میں ابراہیم نخعی اور ضحاک سے منقول ہے کہ حضرات مہاجرین فقراء تھے اور غیر مہاجرین مساکین تھے۔ گویا ان دونوں حضرات نے قول باری (لفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم ان فقراء کے لئے جو مہاجر ہیں اور جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے) سے استنباط کیا ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے۔ کہ فقیر وہ شخص ہے جو جسمانی طور پر کسی معذوری کا شکار ہو اور اسے محتاجی بھی لاحق ہو جبکہ مسکین وہ شخص ہے جسے محتاجی تو لاحق ہو لیکن جسمانی طور پر اسے کوئی معذوری نہ ہو۔ معمر نے ایوب سے، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ مسکین وہ شخص نہیں ہوتا جس کے پاس کوئی مال نہیں بلکہ مسکین وہ ہے جسے معاش کا کوئی وسیلہ میسر نہ ہو۔ اوپر جو روایات ہم نے نقل کی ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقیر کی حالت مسکین کی بہ نسبت بہتر ہوتی ہے اور مسکین کی حالت فقیر کی بہ نسبت بدتر ہوتی ہے۔ امام ابو یوسف نے امام ابوحنیفہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرا تہائی مال فقرا اور مساکین اور فلاں شخص کے لئے ہے “۔ تو اس کا تہائی مال اس شخص کو مل جائے گا اور دو تہائی مال فقراء اور مساکین کو دے دیا جائے گا۔ فقیر اور مسکین کے درمیان فرق کی نیز یہ کہ دونوں دو الگ صنف ہیں، کی جو روایت امام ابوحنیفہ (رح) سے منقول ہے۔ یہ روایت اس سے مطابقت رکھتی ہے اس مسئلے میں امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ فلاں شخص کو تہائی کا نصف مل جائے گا اور باقی نصف فقراء و مساکین کو دے دیا جائے گا۔ یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام ابو یوسف نے فقراء و مساکین کو ایک ہی صنف قرار دیا۔ عاملین کا مفہوم قول باری ہے (والعاملین علیھا۔ اور ان کے لئے جو صدقات کی وصولی پر مامور ہوں) یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات جمع کرنے میں مصروف ہوتے اور ان کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہیں ان کی دوڑ دھوپ اور کارکردگی کے بقدر دیا جائے گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے بھی یہی روایت ہے ۔ ہمیں فقہاء کے مابین اس بارے میں کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے کہ انہیں آٹھواں حصہ نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں ان کے عمل اور کارکردگی کے حساب سے دیا جائے گا۔ یہ امر ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ صدقات کے آٹھ حصے کئے جائیں گے یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ صدقات کی وصولی کا کام امام المسلمین کے ذمہ ہے نیز یہ کہ اگر مویشیوں کا مالک جانوروں کی زکوٰۃ فقراء کو دے دے گا تو اس کا یہ عمل زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ امام المسلمین اس سے دوبارہ زکوٰۃ وصول کرے گا۔ اور مالک نے جو کچھ ادا کردیا ہے اسے حساب میں شمار نہیں کرے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اموال کے مالکان کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی جائز ہوتی تو پھر زکوٰۃ کی وصولی کے لئے کسی شخص کے تقرر کی ضرورت نہ ہوتی جس کی بنا پر فقراء مساکین کو نقصان اٹھانا پڑتا۔ اس لئے یہ مراد اس پر دال ہے کہ صدقات کی وصولی کا کام امام المسلمین کرے گا اور مالک کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ از خود زکوٰۃ کی رقم فقراء و مساکین میں تقسیم کردے۔ تالیف قلوب کن لوگوں کے لئے ہے ؟ قول باری ہے (والمولفۃ قلوبھم۔ اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب الطلوب ہو) یہ وہ لوگ تھے جنہیں مال دے کر اسلام کی طرف راغب کیا جاتا تھا اور ان کی تالیف قلب کی جاتی تھی۔ تالیف قلب کی تین صورتیں تھیں کافروں کی تالیف قلب اس طرح کی جاتی کہ انہیں مال دے کر مسلمانوں کو ان کی جارحیت اور ایذا رسانی سے محفوظ کرلیا جاتا نیز دوسرے مشرکین کے مقابلہ کے لئے ان سے کام لیا جاتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کافروں اور مشرکوں کو مال دے کر انہیں اسلام کی طرف راغب کیا جاتا اور ان کے دلوں کو اس طرح مائل کیا جاتا۔ نیز یہ مقصد بھی ہوتا کہ ان کے قبیلوں میں جو لوگ مسلمان ہوچکے ہوں انہیں یہ تنگ نہ کریں اور اسلام پر برقرار رہنے دیں۔ وغیر ذلک تیسری صورت یہ تھی کہ جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوتے انہیں مال دے کر اسلام پر ثابت قدم رکھنے کی تدبیر کی جاتی تاکہ یہ لوگ دوبارہ کفر کی طرف نہ پلٹ جائیں۔ سفیان ثوری نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو نعیم سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں سونے کی ایک ڈلی روانہ کی جو سلم (کیکر کی طرح کا ایک درخت) کی پتیوں سے کمائے ہوئے چمڑے میں ملفوف تھی۔ حضور ﷺ نے یہ ڈلی زید الخیر، اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن انفراری اور علقمہ بن علاشہ کے درمیان تقسیم کردی۔ اس پر قریش اور انصار مدینہ کو طیش آگیا، انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اہل نجد کے ان سرداروں کو دینے دلانے کی کیا ضرورت تھی آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ “ ابن ابی الذئب نے زہری سے، انہوں نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” میں ایک شخص کو مال دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے، میں یہ قدم صرف اس لئے اٹھاتا ہوں کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ سے اوندھے منہ جہنم میں نہ گرادے۔ “ عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت انصار میں سے کچھ لوگوں نے حسنین کے معرکہ کے اختتام پر یہ دیکھ کر حضور ﷺ قریش کے بعض لوگوں کو فی کس سو اونٹ کے حساب سے دے رہے ہیں۔ آپ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا : ” میں ان لوگوں کو دے رہا ہوں جو ابھی ابھی کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں دراصل میں ان کی تالیف قلب کررہا ہوں اور میں نے ان کی مدارات کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ کیا تمہیں اس بات کی خوشی نہیں ہے کہ لوگ تو مال و دولت لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول (ﷺ) کو لے کر اپنے آدمیوں کی طرف لوٹ جائو۔ “ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں میں سے ایک گروہ کو تالیف قلب کی خاطر مال دیا تھا ناکہ یہ لوگ دوبارہ کفر کی طرف نہ لوٹ جائیں۔ زہری نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے صفوان بن امیہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” مجھے حضور ﷺ نے مال عطا کیا حالانکہ آپ کی ذات کے خلاف میرے دل میں انتہائی بغض تھا، آپ مجھے اسی طرح مال دیتے رہے حتیٰ کہ آپ ﷺ کی ذات میرے لئے محبوب ترین ذات بن گئی۔ محمود بن لبید نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضور ﷺ کو معرکہ حنین میں بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا اور آپ ﷺ نے قریش کے نومسلموں اور عرب کے دوسرے سرداروں کو اس میں سے جتنا دینا چاہا دے دیا تو انصار مدینہ نے اس بات کو برا منایا، حضور ﷺ سے اس کا ذکر ہوا، آپ ؐ نے حضرات انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ” اے گروہ انصار ! کیا تم نے اپنے دل میں اس بات سے برا منایا ہے کہ میں نے کچھ لوگوں کو اسلام لانے کی ترغیب دینے کی خاطر دنیا کا کچھ تھوڑا سا مال دے دیا ہے جب کہ میں نے تمہارے حوالے اسلام کی وہ دولت کردی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارا مقرم بنادیا ہے۔ “ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی اس مقصد کے تحت تالیف قلب یک تھی کہ وہ داخل اسلام ہوجائیں جبکہ پہلی روایت کے مطابق نو مسلموں کی تالیف قلب کی گئی تھی۔ تاکہ وہ دوبارہ کفر کی طرف واپس نہ ہوجائیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کافروں اور مسلمانوں دونوں کی تالیف قلب کرتے تھے۔ مولفۃ القلوب کے بارے میں ائمہ کی آراء مؤلفۃ القلوب کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کی ضرورت حضور ﷺ کے زمانے میں اسلام کے ابتدائی دور میں تھی جب مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب انہیں کافروں کی تالیف قلب کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اگر انہیں اس کی ضرورت پیش آئے گی تو صرف اس بنا پر آئے گی کہ وہ فریضہ جہاد کو ترک کرچکے ہوں گے لیکن جس وقت مسلمان آپس میں اتحاد قائم کرلیں گے اور ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں گے تو پھر انہیں مسلمانوں کا مال کافروں کو دے کر ان کی تالیف قلب کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سلف کی ایک جماعت سے ہمارے اصحاب کے قول کی طرح قول منقول ہے۔ عبدالرحمن بن محمد المحاربی نے حجاج بن دینار سے، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے عبیدہ سے کہ عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکر کہنے لگے : ” اے خلیفہ رسول ! ہمارے قریب ایک کلر زمین ہے نہ اس میں کوئی گھاس اگتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے اگر آپ ہمیں وہ زمین دے دیتے تو بہتر ہوتا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے وہ زمین انہیں دے دی اور ایک دستاویز بھی لکھ دی اور گواہیاں بھی درج ہوگئیں لیکن حضرت عمر ؓ کی گواہی نہیں تھی اس لئے یہ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچے تاکہ وہ بھی اپنی گواہی درج کردیں۔ جب حضرت عمر ؓ کو پتہ چلا تو آپ نے وہ دستاویز ان دونوں کے ہاتھوں سے لے کر لعاب کے ذریعے اس کی تحریر مٹادی۔ یہ دیکھ کر ان دونوں کو بڑا غصہ آیا اور غصے میں انہوں نے کچھ سخڈت کلمات بھی کہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ تم دونوں کی تالیف قلب کرتے تھے۔ اس وقت اسلام کمزور تھا اور اہل اسلام کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مستغنی کردیا ہے اس لئے تم دونوں جائو اور دوسروں کی طرح کسب معاش کی مقدور بھر کوشش کرو۔ اگر تم نے چوراہوں کا کام کیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں عزت کے مقام سے نہیں گرائے گا۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ کے اس اقدام پر انہیں نہیں ٹوکا کہ خلیفہ کی طرف سے حکم جاری ہونے کے بعد انہوں نے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب حضرت ابوبکر ؓ کو اس بات کی طرف توجہ دلائی تو وہ اس بارے میں حضرت عمر ؓ کے مسلک سے آگاہ ہوگئے اور ان کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ مولفۃ القلوب کا ح صہ صرف اس وقت تک نکالا جاتا تھا جب تک اسلام کمزور تھا اور اہل اسلام کی تعداد کم اور کافروں کی تعداد زیادہ تھی، نیز یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کو اس معاملہ میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نظر نہیں آئی۔ اس لئے کہ اگر یہاں اجتہاد کی گنجائش ہوتی تو آپ اس حکم کے فسخ کی ہرگز اجازت نہ دیتے جسے آپ نے جاری کردیا تھا۔ لیکن جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر ؓ کی طرف سے توجہ دلانے کی بنا پر آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوگئے کہ اس جیسے معاملے میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسرائیل نے جابر سے اور انہوں نے ابو جعفر سے روایت کی کہ اب ایسے لوگ باقی نہیں رہے جن کی تالیف قلب کی ضرورت پیش آئے۔ اسرائیل نے جابر بن عامر سے بھی مولفۃ القلوب کے متعلق روایت نقل کی ہے۔ جابر کا کہنا ہے کہ مولفۃ القلوب حضور ﷺ کے زمانے میں تھے جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بن گئے تو اس سلسلے میں مال خرچ کرنا ختم کردیا گیا۔ ابن ابی زائدہ نے مبارک سے انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ اب مولفۃ القلوب کا وجود نہیں ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں ان کا وجود تھا۔ معقل بن عبید اللہ کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے مولفۃ القلوب کے متعق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ یہود یا نصاریٰ میں سے جو لوگ مسلمان ہوجائیں وہ مولفۃ القلوب ہیں، میں نے پھر پوچھا۔ ” خواہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں ؟ “ حسن نے جواب کہا : ” خواہ وہ مالدار کیوں نہ ہو ؟ “ گردنیں آزاد کرنا قول باری ہے (وفی الرقاب۔ نیز گردنوں کے چھڑانے میں) اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر اور محمد بن سیرین کا قول ہے کہ کسی غلام کا زکوٰۃ کے پیسوں سے آزاد ہونا جائز نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : ” اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کردو “ سعید بن جبیر زکوٰۃ میں سے غلام آزاد نہیں کرتے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ کہیں آزاد ہونے والا ان کی ولاء کو کھینچ کر کسی اور تک نہ پہنچا دے۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے مال سے غلام خریدے جاسکتے ہیں اور انہیں آزاد کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ان کی ولاء آزاد کرنے والوں کے لئے نہیں ہوگی بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی۔ امام مالک اور اوزاعی کا قول ہے کہ مکاتب کو زکوٰۃ کے پیسوں میں سے کچھ نہیں دیا جائے گاا۔ اسی طرح پیسے کسی غلام کو نہیں دیے جائیں گے خواہ اس کا آقا تنگدست ہو یا خوش حال۔ اس طرح کفارات کے اندر بھی ان پیسوں سے آزاد کرنے کے لئے غلام نہیں خریدے جائیں گے ۔ امام مالک (رح) نے مزید فرمایا ہے کہ زکوٰۃ کے مال میں سے صرف مومن غلام آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں سلف کے مابین مکاتب کو زکوٰۃ کے مال میں سے دینے کے جواز میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں مکاتب کو دینا مراد ہے اور جو شخص اپنے صدقہ یعنی زکوٰۃ کی رقم اسے دے دے گا اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (انما الصدقات للفقراء) تا قول باری (وفی الرقاب) غلام آزاد کنا صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح غلام کی قیمت میں دی ہوئی رقم بھی صدقہ نہیں ہے اس لئے کہ غلام کے فروخت کنندہ نے اس رقم کو اپنے غلام کی قیمت کے طور پر لیا تھا۔ اس لئے غلام آزاد کرنے میں صدقہ کا مفہوم نہیں پایا گیا اس لئے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقات کو رقاب یعنی غلاموں میں رکھا ہے۔ اس لئے جو چیز صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں ہوگی اس کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ نیز زکوٰۃ تملیک کی مقتضی ہے اور غلام آزادی کی وجہ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوا البتہ ایک چیز یعنی آقا کی ملکیت اس کی گردن سے ساقط ہوگئی۔ اس سے غلام کو اپنی ملکیت حاصل نہیں ہوئی۔ اگر اسے اپنی ملکیت حاصل ہوجاتی تو پھر ضروری ہوتا کہ وہ اپنی گردن یعنی ذات کے اندر تصرف کرنے میں آقا کے قائم مقام ہوجاتا اور جس طرح آقا اس کی گردن میں تصرف کرتا ہے اسی طرح وہ بھی تصرف کرسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آزادی کی بنا پر غلام کو جو چیز حاصل ہوئی وہ آقا کی ملکیت کا سقوط ہے اس کی وجہ سے وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوا۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ غلام کی آزادی زکوٰۃ کی ادائیگی کی کفایت کر جائے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہوجائے اس لئے کہ زکوٰۃ اور صدقہ کی شرط یہ ہے کہ جس پر صدقہ کیا گیا ہے اس کی ملکیت اس صدقہ پر واقع ہوجائے۔ نیز غلام کی آزادی آقا کی ملکیت میں واقع ہوئی ہے اور یہ کسی غیر کی طرف منتقل نہیں ہوسکتی اسی بنا پر ولاء کا ثبوت بھی اس کے لئے ہوگا اس لئے صدقہ کے مال میں سے آزادی اک واقع ہونا جائز نہیں ہوگا۔ چونکہ حضور ﷺ سے یہ روایت ثابت ہوچکی ہے کہ (الولاء لمن اعتق۔ ولاء اس کے لئے ہے جس نے آزادی دی ہے) اس لئے یہ ضروری ہے کہ آزادی دینے کے والے کے سوا ولاء کسی اور کے لئے ثابت نہ ہو۔ جب یہ بات منتفی ہوگئی کہ ولاء آزادی دینے والے کے سوا کسی اور کے لئے ثابت ہوجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگیء کہ رقاب سے مکاتب مراد ہیں۔ نیز عبدالرحمن بن سہل بن حنیف نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من اعان مکاتبا فی رقبتہ اوغاز یافی عسرتہ اومجاھداً فی سبیل اللہ اظلہ اللہ فی ظلہ یوم لاظل الاظلہ جس شخص نے کسی مکاتب کی گردن چھڑانے میں یا کسی غازی کی تنگدستی دور کرنے میں یا کسی مجاہد فی سبیل اللہ کی اعانت کی۔ اللہ تعالیٰ اس دن اسے اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکاتب غلاموں کو اس مقصد کے تحت مال زکوٰۃ دینا کہ آزادی حاصل کرنے میں ان کی اعانت ہوجائے۔ قول باری (وفی الرقاب) کے مفہوم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ طلحۃ الیمانی نے عبدالرحمن بن عوسجہ سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ ایک بدوی ن حضور ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے ایسی کوئی بات سکھا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اگرچہ اپنا بیان مدعا بہت مختصر رکھا ہے تاہم اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں کامیاب رہے ہو۔ سنو، جان کو آزاد کرو اور گردن چھڑائو۔ “ سائل نے استفسار کیا : ” آیا یہ دونوں باتیں یکساں نہیں ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : نہیں، جان کی آزادی یہ ہے کہ تم کسی کی غلامی سے آزدی دلادو۔ اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تم اس کی گردن یعنی غلام کی قیمت کی ادائیگی میں مدد کردو۔ منحہ یہ ہے کہ کسی کو سواری کے لئے اپنا جانور دے دو ، اپنے ظالم رشتہ دار کو بھی فی میں شریک کرو۔ اگر تم ان امور کی طاقت نہیں رکھتے ہو تو بھوکے کو کھانا کھلادو، پیاسے کو پانی پلادو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ اگر تمہیں اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو پھر اپنی زبان بند رکھو اور صرف خیر یعنی اچھی بات کے لئے اسے کھولو۔ “ اس روایت میں حضور ﷺ نے جان کی آزادی کو گردن چھڑانے سے الگ چیز قرار دیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا۔ (وفی الرقاب) تو بہتر مفہوم یہ ہے کہ گردن کی مدد میں زکوٰۃ خرچ کی جائے یعنی مکاتب کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے آقا کو رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرلے۔ آیت کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ اس سے مراد غلام خرید کرکے اسے آزاد کردیا جائے۔ اس لئے کہ اس صورت میں فروخت کنندہ جو رقم لے گا وہ غلام کی قیمت کے طور پر لے گا اس میں تقرب الٰہی اور عبادت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔ بلکہ عبادت اور تقرب الٰہی کی صورت یہ ہوگی کہ خود غلام کو زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے تاکہ وہ اس رقم کی مدد سے اپنی گردن آزاد کرالے۔ یہ صورت صرف مکاتب غلام کے اندر ممکن ہے۔ اس لئے کہ کتابت سے پہلے اگر غلام کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے گی وہ رقم آقا کی ملکیت میں چلی جائے گی۔ لیکن جب غلام مکاتب ہوگا تو اس صورت میں مکاتب کی حاصل کردہ رقم آقا کی ملکیت میں نہیں جائے گی بلکہ مکاتب کی ملکیت میں رہے گی اس لئے زکوٰۃ کے مال میں سے اسے دے دینا جائز ہوجائے گا اور اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔ نیز گردن آزاد کردینا تملیک کے بغیر اس کی گردن سے آقا کے حق کو ساقط کردیتا ہے اور پھر تملیک کے لئے اسے آقا کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جس نے کسی شخص کا قرض اس کے حکم کے بغیر ادا کردیا ہو۔ اس لئے قرض میں دی ہوئی رقم اگر زکوٰۃ کی رقم ہوگی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ اگر وہ شخص مقروض کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کردے اور پھر خود مقروض اس رقم سے اپنا قرض اتاردے تو اس صورت میں اس شخص کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم مکاتب کے حوالے کرکے اسے اس کا مالک بنادے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر اس نے غلام آزاد کردیا ہو تو اس صورت میں اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے کہ غلام نہ تو اس آزادی کا ملک ہوا، نہ اس نے اسے قبول کیا اور نہ ہی اس نے اس کی اجازت دی، ان باتوں کے بغیر ہی اسے آزادی مل گئی۔ قرض داروں کی مدد زکوٰۃ سے کرنا قول باری ہے (والغارمین اور قرضداروں کی مدد کرنے میں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ان سے مقروض مراد ہیں اور اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایک شخص جب اپنے قرض کی رقم سے زائد دو سو درہم کا مالک نہیں ہوگا وہ فقیر ہوگا اور زکوٰۃ اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (امرت ان اٰخذھا من اغنیائکم واردھا علی فقرائکم مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مالداروں سے زکوٰۃ لے کر تمہارے فقراء کو دے دوں) ہمیں آیت اور حدیث دونوں کے مجموعی مفہوم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مقروض فقیر ہوتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کے ارشاد (واردھا علی قراء کم) کے بموجب زکوٰۃ صرف فقراء کو دی جاتی ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جب ایک شخص پر اس قدر قرض ہو کہ اس کا سارا مال اس کے لپیٹ میں آگیا ہو تو خواہ اس کے پاس بہت زیادہ مال کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ ایسا شخص شرعی لحاظ سے فقیر ہوگا اور زکوٰۃ لینا اسے جائز ہوگا۔ آیت چند قسم کے قرضداروں کے ساتھ خاص ہے اور چند قسمیں اس سے خارج ہیں وہ اس طرح کہ اگر ایک شخص کے پاس ہزار درہم ہوں اور اس پر سو درہم کا قرضہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ لینا حلال نہیں ہوگا اور اگر کوئی شخص اسے اپنی زکوٰۃ دے دے تو اس کی ادائیگی نہیں ہوگی اگرچہ سو درہم کے قرہ کی بنا پر وہ عزیم یعنی قرضدار کہلاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عزیم سے مراد ایسا قرضدار ہے جس کے پاس قرض ادا کرنے کے بعد دو سو درہم یا اس کے مساوی مقدار کا مال باقی نہ بچے۔ اس شخص کے پاس جو رقم ہے اسے ایسا مال قرار دیا جائے گا جس پر قرضخواہ کا استحقاق ہوگیا ہے اور اس سے زائد جو رقم ہوگی اس کے لحاظ سے اسے غیر مقروض قرار دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرضداروں کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال کردیا ہے اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ قرضدار اگر تندرست و توانا اور کمائو ہو پھر بھی زکوٰۃ اس کے لئے حلال ہوگی۔ اس لئے کہ آیت میں کمائو قرضدار اور کمائی کرنے سے عاجز قرضدار کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جس شخص نے دس ہزار درہم کی ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہو اور اس کے پاس سو ہزار یعنی ایک لاکھ درہم ہو تو ایسے شخص کے لئے زکوٰۃ لینا حلال ہوگا۔ اور اگر اس پر قرض ہو لیکن ضمانت نہ ہو تو اس صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوگی۔ امام شافعی نے اس سلسلے میں حضرت قبیصہ بن المخارق ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ایک ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا تھا اور اس سلسلے میں حضور ﷺ کے سامنے دست سوال دراز کیا تھا اس موقع پر آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا : ” صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے سوال کرنا حلال ہوتا ہے ایک وہ شخص جس نے کسی ضمانت کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہو وہ اس کی ادائیگی کے لئے دست سوال دراز کرسکتا ہے دوسراوہ شخص جس کے مال کو کسی آسمانی مصیبت نے تباہ کردیا ہو وہ اپنے گزارے کے لئے دست سوال دراز کرسکتا ہے اور تیسرا وہ شخص جسے تنگدستی اور فاقہ نے آگھیرا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی بھی اس کی اس تنگدستی اور فاقہ مستی کی گواہی دیں۔ ایس شخص کے لئے دست سوال دراز کرنا حلال ہوتا ہے تاکہ گزارے کی صورت نکل آئے اور اس کے بعد پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے گا۔ ان تین افراد کے ماسوا جو بھی دست سوال دراز کرے گا وہ حرام مال حاصل کرے گا۔ “ اب یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ حمالہ یعنی ضمانت کی ذمہ داری اور قرض کی تمام صورتیں یکساں ہیں اس لئے کہ حمالہ یعنی ضمانت اور کفالت دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جمیل یعنی ضامن اور کفیل دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ جب حضور ﷺ نے حمیل کو کفالت کے دین کی بنا پر سوال کرنے کی اجازت دے دی جبکہ آپ کو کفالت کے دین اور دوسرے تمام ولیون کی یکسانیت کا علم تھا تو اب ان کے مابین کوئی فرق نہیں رہا۔ اس لئے حمالہ کی بنا پر سوال کرنے کی اباحت کو اس پر محمول کیا جائے ا کہ حمیل اس کی ادائیگی کی قدرت نہیں رکھتا تھا اور اس پر عائد ہونے والی رقم اس مال کے بالمقابل ہوگی۔ جو اس کی ملکیت میں ہے جیسا کہ قرض کی دیگر تمام صورتوں میں ہمارا مسلک ہے۔ اسرائیل نے جابر بن ابی جعفر سے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے مراد وہ مقروض ہے جس کے اوپر قرض کا بوجھ آپڑا ہو جبکہ اس نے کوئی فضول خرچی بھی نہ کی ہو، امام المسلمین کی ذمہ داری ہے کہ اس کا قرض ادا کردے۔ سعید نے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے ایسے لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنی طرف سے نہ کوئی فضول خرچی کی ہو اور نہ ہی اپنا مال ضائع کیا ہو لیکن اس کے باوجود ان پر قرض کا بوجھ آپڑا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ کے مال میں ایک حصہ رکھ دیا ہے۔ ان حضرات نے قرض کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ فضول خرچی کرنے نیز مال اڑانے اور ضائع کرنے کے بغیر ہی قرض کا بوجھ آپڑا ہو تو زکوٰۃ کے مال میں سے ایسے شخص کا قرض ادا کردیا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا مقروض اگر فضول خرچ اور مال اڑانے والا ہوگا تو قرض ادا ہونے کے بعد اس کی طرف سے یہ کھٹکا باقی رہے گا کہ کہیں دوبارہ قرض لے کر پیسے اڑانے میں نہ لگ جائے۔ ایسے شخص کے قرض کی زکوٰۃ کے مال سے ادائیگی کو ان حضرات نے مکروہ سمجھا ہے تاکہ وہ اس ادائیگی کو اسراف اور ضیاع کا ذریعہ نہ بنالے۔ تاہم ایسے شخص کے قرض کی زکوٰۃ کے مال سے ادائیگی کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اسی طرح اسے زکوٰۃ دینے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ ان حضرات نے ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کا مال دینے کے سلسلے میں فضول خرچی نہ کرنے اور مال نہ اڑانے کا جو ذکر کیا ہے وہ کراہت پر مبنی ہے ایجاب پر مبنی نہیں ہے۔ عبید اللہ بن موسیٰ نے عثمان بن الاسود سے اور انہوں نے مجاہد سے قول باری (والغارمین) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ غارم وہ شخص ہے جس کے مال مویشی کو سیلاب بہاکر لے گیا ہو یا آگ لگنے کی بنا پر اس کا مال ضائع ہوگیا ہو یا کوئی عیال دار شخص ہو جس کے پاس اپنے عیال کا خرچ چلانے کے لئے کچھ نہ ہو اور پھر وہ مجبور ہوکر قرض لے لے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس شخص کا مال ضائع ہوگیا ہو لیکن اس پر قرض کی کوئی رقم نہ ہو تو ایسا شخص عزیم نہیں کہلائے گا اس لئے عزم، لزوم اور مطالبہ کو کہتے ہیں اس بنا پر جس شخص کو کوئی قرم لازم ہوگیا ہو وہ عزیم کہلائے گا اسی طرح جس شخص کا کسی کے ذمہ قرض ہو وہ بھی عزیم کہلائے گا اس لئے کہ اسے اپنے مقروض کا پیچھا کرنے اور اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا حق ہے لیکن جس شخص کا مال ضائع ہوگیا ہو وہ عزیم نہیں ہوگا ایسے شخص کو فقیر یا مسکین کہا جائے گا۔ روایت میں ہے کہ حضور ﷺ گناہ اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” انسان جب قرض کے چکر میں پھنس جاتا ہے تو بات کرنے میں جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہے۔ “ آپ کی اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی انسان پر قرض کی رقم لازم ہوجاتی ہے تو وہ یہ حرکتیں کرتا ہے درج بالا سطور میں مجاہد کے جس قول کا حوالہ دیا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ مجاہدنے اس سے ایسا شخص مراد لیا ہو جس کا مال ضائع ہوگیا ہو اور اس پر قرض بھی ہو۔ اس لئے کہ جب اس شخص کے پاس مال ہو اور اس پر اس کے مال کی مقدار سے دو سو درہم کم قرض ہو تو ایسا شخص آیت میں مراد غارم نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف نے عبداللہ بن ابی سعیط سے، انہوں نے ابوبکر الحنفی سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (ان المسئلۃ لاتحل ولاتصلح الا لاحد ثلاثۃ لذی فقر مدقع اولذی غرم مقظع اولذی دم موجع۔ سوال کرنا صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے حلال اور درست ہوتا ہے۔ ایسے تنگدست اور فقیر کے لئے جس کے فقر و فاقہ نے اسے زمین پر گرا رکھا ہو یا ایسے مقروض کے لئے جو اپنے قرض کے ہاتھوں ذلیل ہوچکا ہو یا ایسے شخص کے لئے جس پر خون کی دیت کا تکلیف دہ بوجھ آپڑا ہو) یہ بات واضح ہے کہ آپ نے عزم سے دین یعنی قرض مراد لیا ہے۔ زکوٰۃ، راہ خدا میں قول باری ہے (وفی سبیل اللہ، اور راہ خدا میں) ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ العوفی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (لاتحل الصدقۃ لغنی الافی سبیل اللہ اوابن السبیل اور جل لہ جار مسکین تصدق علیہ فاھدی لہ، کسی مالدار کے لئے تین صورتوں کے سوا زکوٰۃ حلال نہیں ہے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی راہ میں نکلا ہو، دوم یہ کہ وہ مسافر ہو اور سوم یہ کہ اس کا کئی مسکین پڑوسی ہو جسے بطور زکوٰۃ کوئی چیز دی گئی ہو اور وہ تحفہ کے طور پر یہ چیز اپنے امیر پڑوسی کو بھیج دے) اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے اس سے مراد اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہیں خواہ وہ مالدار ہوں یا فقیر۔ امام شافعی کا یہی قول ہے تاہم انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ مجاہدین میں جو لوگ فقراء ہوں گے انہیں زکوٰۃ کا مال دیا جائے گا۔ مالداروں کو نہیں دیا جائے گا تاہم اگر انہیں زکوٰۃ کا مال دے دیا گیا تو وہ اس کے مالک ہوجائیں گے اور زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اگرچہ اس نے اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کیا۔ اس لئے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط تملیک ہے جو اس صورت میں وقوع پذیر ہوجاتی ہے اس لئے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا صدقہ کیا تھا اس کے بعد انہوں نے اسے فروخت ہوتا ہوا دیکھا اور اسے خرید لینے کا ارادہ کرلیا۔ حضور ﷺ نے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا (لا تعدفی صدقتک۔ اپنا صدقہ واپس نہ لو) حضور ﷺ نے اس شخص کو اس گھوڑے کی فروخت سے منع نہیں کیا جسے یہ گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لئے دیا گیا تھا اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا گھوڑا حج پر جانے والے کسی شخص کو سواری کے لئے دے دے جس کی سواری کا جانور ہلاک ہوگیا ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اللہ کی راہ میں اپنے مال کی وصیت کی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ حج بھی فی سبیل اللہ کی ایک صورت ہے۔ یہ وصیت حج میں لگا دو ۔ محمد بن الحسن نے سیر کبیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے تہائی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وصیت کرجائے تو حج پر جانے والے شخص کو جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو یہ مال دے دینا جائز ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (فی سبیل اللہ) سے مراد محمد کے نزدیک وہ حاجی مراد ہے جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (الحج والعمرۃ من سبیل اللہ حج اور عمرہ بھی اللہ کی راہ کے کام ہیں) امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ جو شخص تہائی مال کی اللہ کی راہ میں وصیت کرجائے تو اس کا یہ تہائی مال جہاد میں حصہ لینے والے فقراء کو دیا جائے گا۔ اگر یہ کہاجائے کہ حضور ﷺ نے مالدار مجاہدین کو زکوٰۃ لینے کی اجازت دے دی ہے چناچہ آپ کا ارشاد ہے (لاتحل لغنی الافی سبیل اللہ۔ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں ہوتی الا یہ کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کررہا ہو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کبھی انسان اپنے اہل و عیال کے اندر اور اپنے شہر میں اس طرح غنی ہوتا ہے کہ اس کے پاس رہنے کے لئے مکان ہوتا ہے گھر کا اثاثہ ہوتا ہے۔ خدمت کے لئے نوکر اور سواری کے لئے گھوڑا ہوتا ہے۔ نیز اس کے پاس ضروریات سے زائد دو سو درہم کی رقم یا اس کی مساوی قیمت کا مال ہوتا ہے اس صورت میں اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوتی۔ جب وہ اللہ کے راستے میں نکلنے کا عزم کرتا ہے تو اسے کفر کے لئے ضروری سامان نیز جنگ کے لئے ہتھیاروں اور دیگر چیزوں کی ضرورت پیش آجاتی ہے جن کی اقامت کی حالت میں ضرورت نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اس شخص کے لئے زکوٰۃ جائز ہوجاتی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے شخص کے پاس اس کی ضروریات سے زائد جو مال ہو وہ کسی سواری یا ہتھیار یا ذرائع سفر کی کسی چیز کی صورت میں ہو جس کی شہر میں رہتے ہوئے اسے ضرورت نہ ہو اور پھر یہی چیز اس کے لئے زکوٰۃ کی حلت کو مانع بن گئی ہو جب کہ اس کی قیمت دو سو درہم یا اس سے زائد ہو۔ پھر جب یہ شخص جہاد پر نکلا ہو تو اسے اس چیز کی ضرورت پیش آگئی ہو جس کی بنا پر اسے زکوٰۃ کی رقم دے دینا جائز ہوگیا ہو حالانکہ وہ اس پہلو سے غنی اور مالدار شمار ہوتا ہو۔ حضور ﷺ کے ارشاد ” زکوٰۃ مال دار غازی کے لئے حلال ہوتی ہے “ کا یہی مفہوم ہے۔ ابن سبیل قول باری ہے (وابن السبیل اور مسافر نوازی میں) یہ وہ مسافر ہے جس کا زاد راہ ختم ہوچکا ہو وہ زکوٰۃ کے مال میں سے لے سکتا ہے اگرچہ اس کے شہر میں اس کا اپنا مال موجود ہو۔ مجاہد، قتادہ اور ابو جعفر سے یہی روایت ہے۔ بعض متاخرین کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن اس کے پاس سواری اور زاد راہ نہ ہو۔ یہ قول درست نہیں ہے اس لئے کہ سبیل طریق یعنی راستے کو کہتے ہیں اس لئے جو شخص راستے میں نہیں ہوگا وہ ابن السبیل نہیں کہلائے گا۔ صرف عزم و ارادے کی بنا پر وہ ابن السبیل نہیں بن جائے گا جس طرح صرف ارادے کی بنا پر وہ مسافر نہیں بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جائو جب تک کہ غسل نہ کرلو الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ مسافر ہے جسے پانی نہ ملے تو تیمم کرلے۔ اسی طرح ابن السبیل بھی مسافر ہوگا۔ جن اصناف کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ فقر کی بنا پر زکوٰۃ کی رقم وصول کرتے ہیں۔ مولفۃ القلوب اور صدقات کے کام پر مامور افراد یہ رقم زکوٰۃ کے طور پر وصول ہی کرتے بلکہ زکوٰۃ کی یہ رقم امام السلمین کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے تاکہ وہ اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردے پھر امام مولفۃ القلوب کو اس میں سے اس غرض سے دیتا ہے کہ فقراء اور دیگر تمام اہل اسلام ان کی ایذا رسانی اور جارحیت سے محفوظ رہیں۔ امام المسلمین صدقات کے کام پر مامور افراد کو زکوٰۃ کی رقم ان کی خدمات کے معاوضہ کے طور پر دیتا ہے، انہیں زکوٰۃ کے طور پر نہیں دیتا۔ ہم نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (امرت ان اخذا لصدقۃ من اغنیاء کم داردھا فی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کروں اور تمہارے فقراء میں اسے لوٹادوں) حضور ﷺ نے یہ بیان کردیا کہ زکوٰۃ کا مصرف فقراء ہیں اور زکوٰۃ کی رقم ان پر خرچ ہوگی۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی شخص اس رقم کو زکوٰۃ کے طور پر صرف فقر کی بنا پر لے سکتا ہے اور جن اصناف کا آیت میں ذکر ہوا وہ صرف فقر کے اسباب کے بیان کے طور پر ہوا ہے۔ اس فقیر کا بیان جسے زکوٰۃ کی رقم جائز ہے ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل علم کا مال کی اس مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے جس کی ملکیت کی بنا پر ایک شخص دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا اور فقر کی حد سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ حرام ہوجاتی ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ جب ایک شخص کے اہل خانہ کے پاس صبح و شام دو وقت گزارے کا سامان اور خوراک موجود ہو تو پھر اسے زکوٰۃ کی رقم لینا حرام ہوجاتا ہے اور جس شخص کے پاس اس سے کم مقدار کا سامان ہو وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے عبدالرحمن نے یزید بن جابر سے روایت کی ہے انہیں ربیعہ بن یزید نے ابو کبثہ سلولی سے ، انہیں سہل بن حنظلہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے (من سئال الناس عن ظھر غنی فانما یستکثر من جمرجھنم، جو شخص مال داری کی پشت پناہی کے ہوتے ہوئے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے وہ صرف جہنم کے زیادہ سے زیادہ انگارے اپنے لئے جمع کرتا ہے) حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول ﷺ ! ” مالداری کی پشت پناہی کے کیا معنی ہیں ؟ “ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا (ان یعلم ان عنداھلہ ما یغدیھم ویعشیھم۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مانگنے والے کو اس کا علم ہو کہ اس کے اہل خانہ کے پاس اتنا سامان اور خوراک موجود ہے جس سے وہ ان کے دو وقت طعام کا انتظام کرسکتا ہے۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جب ایک شخص چالیس درہم کا مالک ہوجاتا ہے تو دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا ہے یا اس کے پاس اتنی مقدار کا سونا ہو تو بھی وہ دولت مند شمار ہوگا۔ ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے امام مالک نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے۔ انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے بنی اسد کے ایک شخص سے، جو یہ کہتے ہیں کہ ” میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا، میں نے سنا کہ آپ ﷺ ایک شخص سے فرما رہے تھے (من سئال منکم وعبدہ اوقیۃ اوعدلھا فقد سئال الحاقاً ۔ تم میں سے جس شخص کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے برابر سونا ہو اور پھر وہ سوال کرے تو گویا وہ پیچھے پڑ کر سوال کرنے والا کہلائے گا) اس زمانے میں ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا تھا۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ایک شخص پچاس درہم یا اس کے برابر سونے کا مالک ہوجائے گا تو وہ غنی کہلائے گا۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے سفیان ثوری نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے انہوں نے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا یسئل عبد مسئلۃ ولہ مایغنیہ الاجاء ت شینا اوکدوحاً اوخدوشاً فی وجھہ یوم القیامۃ۔ جب کوئی بندہ گزارے کے اسباب کا مالک ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرے گا تو اس کا یہی سوال قیامت کے دن یا اس کے چہرے کی بدنمائی کا سبب بن جائے گا یا خراشوں یا زخموں کی صورت اختیار کرلے گا) آپ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کے غنی یعنی گزارے کی کیا مقدار ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : پچاس درہم یا اس کے برابر سونا۔ “ حجاج نے حسن بن سعد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں یا اس کے برابر سونا ہو اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہے۔ شعبی سے مروی ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں وہ زکوٰۃ نہیں لے گا۔ اور ہم اسے زکوٰۃ میں سے پچاس درہم بھی نہیں دیں گے۔ دوسرے حضرات کے خیال میں ایک شخص غنی اس وقت شمار ہوگا جب اس کے پاس دو سو درہم یا اس کے برابر سامان وغیرہ ہوگا بشرطیکہ یہ سامان اس کی ضروریات مثلاً مکان ، نوکر چاکر، گھریلو استعمال کی اشیاء اور سواری کے گھوڑے وغیرہ سے زائد ہو۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت ابو بر الحنفی نے کی ہے۔ انہیں عبداللہ بن جعفر نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں قبیلہ مزلینہ کے ایک شخص نے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من سئال ولہ عدل مس اواق سئال الحاق جس شخص کے پاس پانچ اوقیہ چاندی کے مساوی مال موجود ہو اور پھر وہ دست سوال دراز کرے تو ایسا شخص پیچھے پڑ کر مانگنے والا شمار ہوگا) اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے لیث بن سعد نے روایت کی ہے انہیں سعید بن ابی المقبری نے شریک بن عبداللہ بن نمر سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ آیا اللہ نے آپ کو اس صدقہ کی وصولی کا حکم دیا ہے جسے آپ ہمارے دولت مندوں سے لے کر ہمارے فقراء پر تقسیم کردیں ؟ “ آپ نے جواب میں فرمایا : ” ہاں بیشک “۔ یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ابو معبد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو جب یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا : وہاں کے لوگوں کو یہ بتادینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کردی ہے جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے فقراء میں تقسیم کردی جائے گی۔ “ اشعث نے ابن ابی جحیفہ اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے صدقات جمع کرنے کے لئے ایک آدمی کو ساعی بناکر بھیجا۔ آپ نے اس شخص کو یہ حکم دیا کہ ہمارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے فقراء پر تقسیم کردے۔ جب حضور ﷺ نے لوگوں کے دو گروہ بادیئے، ایک فقراء کا گروہ اور دوسرا اعتیاء کا گروہ اور پھر اغنیاء کے گروہ سے زکوٰۃ کی وصولی اور فقراء میں اس کی تقسیم واجب کردی۔ تو اب ان دونوں گروہوں کے درمیان کوئی تیسرا گروہ واسطہ کے طور پر باقی نہیں رہا۔ جب اس شخص کو غنی شمار کیا گیا جو دو سو درہم کا مالک ہو اور اس سے کم مقدار کے مالک کو غنی شمار نہیں کیا گیا تو ضروری ہوگیا کہ دو سو درہم سے کم مقدار کا مالک فقراء کے گروہ میں شامل کیا جائے اور پھر اس کے لئے زکوٰۃ جائز ہوجائے۔ پھر جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت یعنی صبح و شام کی خوراک سے بھی کم مال ہو اس کے لئے زکوٰۃ حلال ہوجاتی ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی اباحت اس ضرورت پر موقوف نہیں ہوتی جس کے پیش آنے پر مردار بھی جائز ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس مقدار کا اعتبار واجب ہوگیا جس کی بنا پر ایک شخص دولت مندی کی حد میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہ حد یہ ہے کہ انسان اپنی ضروریات زندگی سے زائد دو سو درہم یا اتنی ہی قیمت کے سازوسامان کا مالک ہو۔ رہ گئیں پچاس یا چالیس درہموں کی ملکیت کے متعلق روایات جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے تو درحقیقت ان روایات کا ورود دست سوال دراز کرنے کی کراہت کے سلسلے میں ہوا ہے۔ اس کی تحریم کے سلسلے میں نہیں ہوا ہے۔ دست سوال دراز کرتا تو اس شخص کے لئے بھی مکروہ سمجھا گیا ہے جس کے پاس ایک وقت کے گزارے کا سامان موجود ہو، خاص طور پر اس زمانے میں جب حضور ﷺ ابھی تازہ بتازہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں میں فقراء کی کثرت تھی اور مال و دولت کی بہت قلت تھی۔ حضور ﷺ نے ایسے شخص کے لئے دست سوال دراز نہ کرنا پسند فرمایا تھا جس کے پاس گزارے کے لئے تھوڑا بہت سامان موجود تھا اس سے مقصد یہ تھا کہ اس شخص کی جگہ ایسا شخص سوال کرے جو اس سے بھی زیادہ بدحال ہو نیز جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ اس حکم کی مثال آپ کا یہ ارشاد ہے (من استغنی اغناہ اللہ ومن استعف اعفہ اللہ ومن لا یسئلنا احب الینا ممن یسئلنا۔ جو شخص استغناء اختیار کرے گا اللہ اسے مستغنی کردے گا۔ جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ اسے سوال سے بچالے گا جو شخص ہم سے سوال نہیں کرتا وہ ہمیں اس شخص کی بہ نسبت زیادہ پسند ہے جو ہم سے سوال کرتا ہے) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (لان یا خذاحدکم خبلاً فیحتطب خیرلہ من ان یسئال الناس اعطوہ اومنعوہ۔ تم میں سے کوئی شخص رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں سے ایندھن کی لکڑی باندھ کرلے آئے یہ اس کے لئے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے، اس صورت میں لوگوں کی مرضی ہوگی چاہے تو اسے کچھ دے دیں اور چاہے کچھ نہ دیں۔ فاطمہ بنت الحسین نے حضرت حسین ؓ بن علی سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللسائل حق مان جاء علی فرس سائل کا حق ہوتا ہے خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر کیوں نہ آیا ہو) حضور ﷺ نے سائل کو دینے کا حکم دیا خواہ اس کی ملکیت میں ایک گھوڑا کیوں نہ ہو، گھوڑا اکثر احوال میں چالیس یا پچاس درہم سے زیادہ مالیت کا ہوتا ہے۔ یحییٰ بن آدم نے روایت بیان کی ہے، انہیں علی بن ہاشم نے ابراہیم بن یزید المکی سے، انہوں نے الولید بن عبید اللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے استفسار کیا کہ میرے پاس چالیس درہم ہیں۔ آیا میں مسکین ہوں۔ حضور ﷺ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں یعقوب بن یوسف نے ، انہیں ابو موسیٰ الہروی ن، انہیں المعافی نے، انہیں ابراہیم بن یزید الجزری نے، انہیں الولید بن عبداللہ بن ابی مغیث نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! میرے پاس چالیس درہم ہیں۔ آیا میں مسکین ہوں ؟ “ آپ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ حضور ﷺ نے اسے مسکین کے نام سے موسوم کرکے گویا اس کے لئے زکوٰۃ کی اباحت کردی حالانکہ وہ چالیس درہموں کا مالک تھا۔ زکوٰۃ کی اباحت اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ مساکین کے لئے مخصوص کردی ہے۔ امام ابو یوسف نے غالب بن عبید اللہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حسن سے وہ کہتے ہیں کہ ” حضور ﷺ کے صحابہ کرام میں ایسے لوگ بھی تھے جو زکوٰۃ لے لیا کرتے تھے حالانکہ خود اتنی اراضی، گھوڑوں اور سازو سامان نیز ہتھیاروں کے مالک ہوتے جن کی مجموعی قیمت دس ہزار درہم تک پہنچ جاتی تھی۔ “ اعمش نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام ایسے لوگوں کو زکوٰۃ لینے سے نہیں روکتے تھے جن کے پاس اپنا مکان ہوتا نیز نوکر چاکر ہوتے۔ شعبہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حسن سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : ” جس شخص کے پاس مسکن یعنی گھر ہو نیز خدمت گار بھی ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ “ جعفر بن ابی المغیرہ نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس کے پاس مکان، نوکر، گھوڑا اور ہتھیار ہو۔ ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس کے پاس اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو اسے ان کی ضرورت پڑجائے۔ اس مسئلے میں ایک اور پہلو سے بھی اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ جو شخص تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل ہوگا اس کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہوگی خواہ اس کی ملکیت میں کوئی بھی شے نہ ہو۔ ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ابوبکر بن عیاش نے ابو حصین سے روایت کی ہے انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاتعل الصدقۃ لغنی ولا لذی مرۃ سوی۔ صدقہ کسی مالدار کے لئے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ایسے شخص کے لئے جو تندرست و توانا ہو) ابوبکر بن عیاش نے ابو جعفر سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت کی ہے۔ سعد بن ابراہیم نے ریحان بن یزید سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (لاتحل الصدقۃ لغنی ولا تقوی مکتسب۔ صدقہ مال دار کے لئے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ایسے شخص کے لئے جو قویٰ اور کمانے کے قابل ہو) یہ تمام روایتیں ہمارے نزدیک کراہت پر محمول ہیں۔ تحریم پر محمول نہیں ہیں جس طرح ہم سوال کرنے کے مسئلہ میں بیان کر آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد (لاتحل الصدقۃ لغنی) غنی پر صدقہ کی تحریم اور اسے زکوٰۃ کا مال دینے کے امتناع پر محمول ہے اسی طرح آپ کا ارشاد (ولا لقوی مکتسب) بھی تحریم پر محمول ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے غنی سے ایسا شخص مراد لیا ہو جس کے پاس گزارے کا اتنا سامان ہو جس کی وجہ سے اسے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پڑتی ہو اور اس کی مقدار دو سو درہم سے کم مالیت کی رقم اور سازو سامان ہے۔ اس سے وہ غنی مراد نہ ہو جس کے پاس اتنا سامان ہو جس کی بنا پر اس جیسے شخص پر زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہو۔ اس لئے کہ اول الذکر شخص کو بھی اس بنا پر غنی کہنا جائز ہے کہ اسے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے وہ غنی مراد نہیں ہے جس کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس کے ساتھ مالداری کے وجوب یعنی زکوٰۃ کا تعلق ہوتا ہے اس بنا پر حضور ﷺ کا ارشاد (لاتحل الصدقۃ لغنی ولالذی مرۃ سوی) کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ جس شخص کی معاشی حالت درج بالا کیفیت کی حامل ہو اس کے لئے دست سوال دراز کرنا مکروہ ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت کے بارے میں اس لحاظ سے بھی اختلاف ہے کہ آیا مرفوع ہے یا موقوف ؟ ابوبکر بن عیاش نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں اور امام ابو یوسف نے حصین سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ان کے اپنے قول کے طور پر اس کی روایت کی ہے۔ حضور ﷺ تک اس کی روایت کا سلسلہ نہیں پہنچا ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت کو شعبہ اور حسن بن صالح نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ریحان بن یزید سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے ان کے اپنے قول کے طور پر مرقوفاً روایت کی ہے۔ سفیان نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ریحان بن یزید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ (لاتحل الصدقۃ لغنی ولا لقوی مکتسب) اس طرح اس روایت کے مرفوع ہونے یا نہ ہونے میں راویوں کا اختلاف واقع ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ظاہر قول باری (انما الصدقات للفقراء والمساکین) تمام فقراء اور مساکین کے لئے عام ہے خواہ وہ کسب معاش کی قدرت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ اسی طرح قول باری (وفی اموالھم حق للسائل والمحروم اور سائل نیز محروم کا بھی ان کے اموال میں حق ہوتا ہے) ایسے سائل کے حق کے وجوب کا مقتضی ہے جو تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہو کیونکہ آیت میں اس کے اور اس کے غیر یعنی کمانے کی قدرت نہ رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس پر قول باری (للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لایستطیعون ضرباً فی الارض یعسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف۔ خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذات کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کرنا واقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھنے والے اور قدرت نہ رکھنے والے کمزور کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ درج بالا تمام آیات اس قول کے بطلان کے حق میں فیصلہ دیتی ہیں جس کی رو سے فقیر اگر تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل ہو تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت کی بنا پر ان آیات کی تخصیص بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے۔ ان دونوں روایتوں کے متن میں الفاظ کا اختلاف ہے۔ بعض راویوں نے اسے (لقوی مکتسب) اور بعض نے (لذی مرۃ سوی) کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے پھر ان کے مرفوع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ دوسری طرف ایسی روایات موجود ہیں جو سند کے لحاظ سے ان دونوں روایتوں سے زیادہ صحیح اور استقاضہ یعنی کثرت روایت میں بھی بڑھ کر ہیں اور ان دونوں کی معارض ہیں۔ حضرت انس ؓ اور حضرت قبیصہ بن المخارق نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (ان الصدقۃ لاتحل الا فی احدیٰ ثلاث۔ صدقہ صرف تین قسم کے انسانوں کے لئے حلال ہے) آپ ﷺ نے اس سلسلے میں اس فقیر کا ذکر کیا جس کی تنگدستی نے اسے زمین پر گرا رکھا ہو۔ نیز فرمایا (اور جل اصابتہ فاقۃ اور جل اصابتہ جائحۃ۔ یا ایسا شخص جو فاقہ میں مبتلا ہو یا ایسا شخص جس پر کوئی آفت آگئی ہو) حضور ﷺ نے صدقہ کی حلت کے لئے قوت و طاقت کی عدم موجودگی اور کسب معاش سے عاجزی کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ اسی طرح حضرت سلمان ؓ کی روایت ہے کہ وہ حضور ﷺ کے پاس صدقہ کی کوئی خوردنی شے لے کر آئے۔ آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اسے کھائو اور خود نہیں کھایا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آپ کے صحابہ سب کے سب تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھتے تھے۔ آپ نے کھانے کے لئے صرف ان لوگوں کو خاص نہیں کیا جو ان میں سے اپاہج تھے یا کسب معاش کی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح عروہ بن الزبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عبید اللہ بن عدی بن الخیاء سے نقل کی ہے، انہوں نے عرب کے دو شخصوں سے کہ یہ دونوں حضور ﷺ کی خدمت میں آئے تھے اور آپ سے زکوٰۃ مانگی تھی۔ آپ نے انہیں سر سے پائوں تک دیکھا تھا اور ان پر نظر ڈال کر یہ معلوم کرلیا تھا کہ یہ دونوں مضبوط جسم کے مالک ہیں پھر فرمایا تھا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دے دوں گا لیکن سنو ! زکوٰۃ کے مال میں مال دار انسان اور تندرست و توانا اور کسب معاش کے قابل انسان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ “ آپ نے ان دونوں کو یہ فرمایا تھا کہ ” اگر تم چاہو تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دے دوں گا۔ “ اگر ان کے لئے زکوٰۃ کا مال حرام ہوتا تو آپ ہرگز انہیں نہ دیتے جبکہ ان دونوں کی طاقت و قوت اور کسب معاش کی صلاحیت بھی آپ کے سامنے ظاہر ہوچکی تھی، پھر آپ نے اس کے ساتھ ان پر یہ بھی واضح کردیا کہ زکوٰۃ کے مال میں مالدار انسان نیز تندرست و توانا اور کسب معاش کی صلاحیت رکھنے والے انسان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس سے یہ روایت حاصل ہوئی کہ آپ نے ایسے شخص کے لئے دست سوال دراز کرنے کو مکروہ سمھا اور سوال نہ کرنے کو پسند فرمایا جس کے پاس گزارے کا سامان موجود ہو یا وہ کسب معاش کی قدرت رکھتا ہو اور اس کے ذریعے وہ مانگنے اور سوال کرنے سے بچ سکتا ہو۔ اس میں ایک اور پہلو بھی موجود ہے وہ یہ کہ اس جیسے فقرے کا اطلاق تغلیط و تشدید کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، اس میں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لیس بمومن من یبیت شبعانا وجارہ جائع۔ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو شکم سیر رات گزارے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے) نیز ارشاد ہوا (لادین لمن لا امانۃ لہ۔ جس کے اندر امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں) اسی طرح آپ نے فرمایا (لیس المسکین بالطواف الذی تردہ القمۃ وللقمتان۔ مسکین وہ نہیں ہے جو بہت چکر کاٹنے والا ہو، جو ایک یا دو لقمے لے کر واپس ہوجائے) آپ نے اپنے اس ارشاد میں ایسے شخص سے بالکلیہ مسکنت کی نفی مراد نہیں لی ہے کہ پھر اس کے لئے صدقہ حرام ہوجائے بلکہ آپ کی مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کا سکم اس شخص کے حکم کی طرح نہیں ہے جو دست سوال دراز نہیں کرتا۔ اسی طرح آپ کے ارشاد (ولا حق فیھا الغنی ولالقوی مکتسب) کے معنی یہ ہیں کہ صدقہ میں مذکورہ اشخاص کا حق اس طرح نہیں ہے جس طرح ایک معذور اور کسب معاش سے عاجز انسان کا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (امرت اخذا لصدقۃ من اغنیاء کم وردھافی فقراء کم) آپ نے حکم میں عموم رکھا جس میں تمام فقراء خواہ وہ معذور ہوں یا تندرست سب کے سب داخل ہیں۔ نیز صدقات و زکوٰۃ کے اموال حضور ﷺ کے پاس ارسال کئے جاتے تھے آپ ان میں سے فقراء مہاجرین و انصار اور اصحاب صفہ کو دیتے تھے حالانکہ یہ تمام حضرات تندرست و توانا اور کسب معاش کرنے والے تھے۔ آپ نے ان اموال کو صرف معذور لوگوں کے لئے خاص نہیں کیا اور تندرست لوگوں کو ان سے محروم نہیں رکھا۔ حضور ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک یہی طریق کار چلا آرہا ہے کہ لوگ اپنے صدقات اور زکوٰۃ فقراء کو دیتے ہیں ان میں تندرست و توانا اور معذور سب شامل ہوتے ہیں لوگ انہیں زکوٰۃ دینے میں ان کے معذور اور اپاہج ہونے کا یا تندرست و توانا ہونے کا اعتبار نہیں کرتے۔ اگر تندرست و توانا اور کسب معاش کی قدرت رکھنے والے افراد کے لئے فرض و نفل یعنی زکوٰۃ و صدقات حرام اور ناجائز ہوتے تو حضور ﷺ کی طرف سے تمام لوگوں کو اس بارے میں ضرور ہدایت کردی جاتی اس لئے کہ لوگوں کو عمومی طور پر اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔ جب حضور ﷺ کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں ہے جس کو زکوٰۃ و صدقات کے حاجتمند ایسے فقراء کے لئے ممانعت ہو جو تندرست و توانا ہوں نیز کمانے کی قدرت رکھتے ہوں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کا مال تندرست و توانا اور کسب معاش کی صلاحیت رکھنے والے ضرورت مندوں کو دینا اسی طرح جائز ہے جس طرح اپاہجوں اور کسب معاش سے عاجز اور درماندہ لوگوں کو دینا۔ اگر اس سلسلے میں حضور ﷺ کی طرف سے ممانعت کی کوئی ہدایت ہوتی تو بہ کثرت روایت کے ذریعے نقل ہوکر ہم تک پہنچتی۔ حضور ﷺ کے ذوی القربیٰ ، جن کے لئے صدقہ حرام ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حضور ﷺ کے قرابت داروں میں سے آل عباس، آل علی، آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی تمام اولاد کے لئے صدقہ حرام ہے۔ طحاوی نے ہمارے اصحاب سے اس زمرہ میں عبدالمطلب کی اولاد کا بھی ذکر کیا ہے لیکن مجھے ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔ مذکورہ بالا قرابت داروں پر فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ حرام ہے لیکن انہیں نفلی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے طحاوی نے یہ ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے اگرچہ یہ مشہور روایت نہیں ہے کہ بنو ہاشم کے فقراء صدقات کی آیت میں داخل ہیں۔ طحاوی نے احکام القرآن میں اس کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ اس آیت میں داخل نہیں ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب سے مشہور روایت کی بنا پر ان لوگوں پر صدقہ حرام ہے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے یعنی آل عباس، آل علی، آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد، نیز صدقہ کی حرمت کا تعلق صدقہ مفروضہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ کے ساتھ ہے نفلی صدقے کے ساتھ نہیں ہے۔ ابن السماعہ نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ بنو ہاشم کے افراد کی طرف سے نکالی ہوئی زکوٰۃ بنو ہاشم کے افراد کے لئے حلال ہے لیکن دوسرے لوگوں کی نکالی ہوئی رقم بنو ہاشم کے لئے حلال نہیں ہے۔ انہوں نے صدقہ مفروضہ اور صدقہ نظوع میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ آل محمد (ﷺ) کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں ہے، نفلی صدقات حلال ہیں، سفیان ثوری (رح) کا قول ہے کہ بنی ہاشم کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے انہوں نے فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب پر صدقہ فرض حرام ہے۔ نفلی صدقہ سوائے حضور ﷺ کی ذات کے ہر شخص کے لئے جائز ہے۔ حضور ﷺ نفلی صدقہ بھی قبول نہیں فرماتے تھے۔ صدقہ مفروضہ بنی ہاشم پر حرام ہے اس کی دلیل حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے صرف تین باتوں کے سوا ہمیں کسی اور چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ تمام باتوں میں ہم مسلمانوں کے ساتھ شریک رہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ وضو کرتے وقت اعضائے وضو کو پوری طرح دھوئیں اور ہر حصے میں پانی پہنچائیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں اور تیسری بات یہ تھی کہ گھوڑی اور گدھے کی جفتی نہ کرائیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی ؓ کے بیٹے حسن ؓ نے صدقہ کی ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ حضور ﷺ نے ان کے منہ سے وہ کھجور نکال دی اور فرمایا (انا آل محمد لاتحل لنا لاصدقۃ۔ ہم یعنی آل محمد (ﷺ) کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابو دائود نے، انہیں نصر بن علی نے، انہیں ان کے والد نے خالد بن قیس سے، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے حضرت انس ؓ سے کہ حضور ﷺ کو ایک کھجور کہیں سے مل گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے خوف نہ ہوتا تو کہ کہیں یہ صدقے کی کھجور نہ ہو تو میں ضرور اسے کھالیتا۔ “ بہترین حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے بہز کے دادا سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : چرنے والے اونٹوں کے اندر ہر چالیس میں ایک بنت لبون ہے۔ جو شخص اجر حاصل کرنے کی نیت سے اسے زکوٰۃ میں دے گا اسے اس کا اجر مل جائے گا اور جو دینے سے انکار کرے گا تو میں خود اس سے یہ وصول کروں گا اس کے مال کا ایک حصہ بھی وصول کروں گا۔ اس میں سے آل محمد (ﷺ) کے لئے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔ کئی طر ق سے حضور ﷺ سے یہ حدیث منقول ہے کہ صدقہ آل محمد (ﷺ کے لئے حلال نہیں ہے۔ صدقات تو لوگوں کے میل کچیل ہیں۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان پر صدقات مفروضہ حرام ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ شریک نے سماک بن حرب سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک تجارتی قافلہ مدینے آیا حضور ﷺ نے کچھ خریداری کی اور خریدے ہوئے سامان کو چند اوقیہ چاندی منافع لے کر فروخت کردیا۔ پھر آپ نے بنی عبدالمطلب کی بیوگان میں یہ چاندی صدقہ کردی اور فرمایا : آئندہ میں پھر کوئی ایسی چیز نہیں خریدوں گا جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو۔ “ آپ نے ان بیوگان پر اس کا صدقہ کردیا حالانکہ ان سب کا تعلق بنی ہاشم سے تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ وہ بیوگان بنی ہاشم سے تعلق رکھتی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا تعلق بنی ہاشم سے نہ ہو بلکہ کسی اور قبیلے سے ہو، یہ صرف بنی عبدالمطلب کے مردوں کی بیویاں ہوں۔ بلکہ عرب کے دوسرے علاقوں کی عورتیں ہوں اور بنی عبدالمطلب کے مردوں نے ان سے نکاح کیا ہو اور پھر یہ بیوہ ہوگئی ہوں، نیز حضور ﷺ نے انہیں جو کچھ دیا تھا وہ نفلی صدقہ تھا اور ہاشمی عورتوں پر نفلی صدقہ جائز ہوتا ہے۔ نیز عکرمہ کی روایت جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس روایت سے مقدم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس لئے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں بنو ہاشم کے لئے صدقہ کی ممانعت کی جو خبر دی گئی ہے وہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد دی گئی ہے۔ اس میں ممانعت ہے اور عکرمہ کی روایت اباحت کا پہلو ہے اور ممانعت اباحت سے متاخر ہے اس لئے ممانعت اولیٰ ہوگی۔ بنو المطلب حضور ﷺ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں اس لئے کہ حضور ﷺ سے ان کی قرابت اسی درجے کی ہے جس درجے کی آپ سے بنی امیہ کی قرابت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بنی امیہ حضور ﷺ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں اس لئے بنو المطلب کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور ﷺ نے خمس میں سے ذوی القربیٰ کا حصہ بنو المطلب کو دیا اور بنی ہاشم کو بھی دیا لیکن بنی امیہ کو نہیں دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ تحریم صدقہ میں وہ بھی بنو ہاشم کی طرح ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے صرف قرابت داری کی بنیاد پر اس خمس میں سے دیا تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اور جبیر بن مطعم ؓ نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ” ہم بنو ہاشم کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے اس لئے کہ انہیں یہ فضیلت آپ کے ساتھ رشتہ داری کے قرب کی بنا پر ملی ہے۔ لیکن بنو المطلب اور ہم نسب کے لحاظ سے یکساں درجے پر ہیں۔ آپ نے انہیں تو دیا لیکن ہمیں محروم رکھا۔ اس کی کی وجہ ہے ؟ حضور ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا : ” بنو المطلب کو میں نے اس لئے دیا کہ انہوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا نہ جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام میں۔ “ حضور ﷺ نے بتایا کہ انہیں صرف قرابت کی بنا پر حصہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ قرابت اور نصرت دونوں کی بنا پر انہیں حصہ دیا گیا تھا اگر صدقہ کی تحریم کی بنیاد زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں حضور ﷺ کے لئے صرف ان کی نصرت ہوتی تو پھر ضروری ہوتا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت سے آل ابی لہب اور آل حارث بن عبدالمطلب کے بعض افرا نکل جاتے، اس لئے کہ انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا تھا نیز یہ مناسب ہوتا کہ بنی امیہ میں سے جو لوگ زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے تھے انہیں محروم نہ رکھا جاتا۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ بات ساقط اور غلط ہے۔ نیز خمس کے اندر ذوی القربیٰ کا حصہ ان میں سے صرف مخصوص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا تعلق امام المسلمین کے اجتہاد اور رائے سے ہوتا ہے۔ جبکہ حضور ﷺ کی آل کے بعض افراد میں صدقہ کی تحریم کی تخصیص نہیں ثابت ہوئی نیز خمس کے اندر ذوی القربیٰ کے حصے پر ان کا استحقاق تحریم صدقہ کی بنیاد نہیں ہے اس لئے کہ یتامیٰ اور مساکین نیز ابن السبیل یعنی مسافر خمس کے ایک حصے کے حقدار ہوتے ہیں لیکن ان پر صدقہ حرام نہیں ہوتا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ خمس کے اندر اس کے کسی حصے کا استحقاق تحریم صدقہ کی بنیاد نہیں ہے۔ بنی ہاشم کے موالی پر صدقہ کی تحریم کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ آیا آیت میں وہ بھی مراد ہیں یا نہیں ؟ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ صدقات مفروضہ کی تحریم میں ان کی حیثیت بھی بنو ہاشم جیسی ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ بنو ہاشم کے موالی کو صدقات مفروضہ میں سے دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پہلے قول پر حضرت ابن عباس ؓ کی روایت دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ارقم بن ارقم زہری کو صدقات کی وصولی پر لگایا، انہوں نے ابو رافع ؓ کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو حضور ﷺ نے فرمایا (ان الصدقۃ حرام اعلیٰ محمد واٰل محمد وان مولی القوم من انفسھم۔ صدقہ محمد (ﷺ) اور آل محمد ﷺ پر حرام ہے اور کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اس قوم میں سے ہوتا ہے) ابو رافع ؓ آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ عطاء بن السائب سے روایت ہے انہوں نے ام کلثوم بنت علی ؓ سے روایت کی ہے اور انہوں نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سے جس کا نام ہرمز یا کیسان تھا روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا تھا۔ اے ابو فلاں ! ہم ایسے اہل بیت میں جو صدقہ نہیں کھاتے، اور ایک قوم کا آزاد کردہ غلام اس قوم میں سے ہوتا ہے اس لئے تم صدقہ نہ کھائو “ نیز حضور ﷺ نے جب فرمادیا (الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب) نیز صدقہ ان لوگوں کے لئے حرام قرار دیا گیا جنہیں حضور ﷺ سے قرب نسبت تھا یعنی بنو ہاشم اس سے یہ واجب ہوگیا کہ ان کے موالی کو بھی ان جیسا قرار دیا جائے اس لئے کہ حضور ﷺ نے ولاء کو بھی نسب کی طرح قرابت قرار دیا ہے۔ اگر بنی ہاشم کا کوئی فرد صدقات جمع کرنے کا کام کرے تو اس کے لئے صدقات کے مال میں سے معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے متفقہ طورپر اما ابوحنیفہ سے ذکر کیا ہے کہ بنی ہاشم کے کسی فرد کا صدقات جمع کرنے کا کام پر لگنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس کے لئے صدقات کے مال میں سے اپنا معاوضہ وصول کرنا بھی جائز نہیں۔ امام محمد کا کہنا ہے کہ حضرت علی ؓ یمن کے اندر اپنی کارکردگی کا جو معاوضہ وصول کرتے تھے اسے اس پر محمول کیا جائے گا۔ کہ یہ صدقہ کی مد سے نہیں ہوتا تھا بلکہ کسی اور مد سے اس کا تعلق ہوتا تھا۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا قول سے مراد یہ ہے کہ بنی ہاشم کے کسی فرد کا صدقات جمع کرنے کے کام پر بایں معنی لگنا جائز نہیں ہے کہ وہ اس کام کا معاوضہ بھی وصول کرے، اگر وہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کرے اور معاوضہ نہ لینے کی شرط لگا دے تو اس کے جواز میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ بنی ہاشم کے لئے صدقہ کے مال سے اپنا معاوضہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں علی بن محمد نے، انہیں مسدد نے، انہیں معمر نے، انہیں ان کے والد نے جیش سے، انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ نوفل بن الحارث نے اپنے دو بیٹوں کو حضور ﷺ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے چچا کے پائو جائو شاید وہ تمہیں صدقات کی وصولی کے کام لگا دیں۔ یہ دونوں آپ کے پاس آگئے اور اپنی ضرورت بیان کی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ” اے اہل بیت ! تمہارے لئے صدقات میں سے کوئی چیز جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ہاتھوں کا دھو ون ہے تمہارے لئے خمس کے حصے میں اس قدر مال ہے جو تمہاری ضروری پوی کردے گا۔ “ یا یہ فرمایا : ” جو تمہارے لیے کافی ہوگا۔ “ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عباس ؓ سے کہا تھا کہ حضور ﷺ سے کہہ کر صدقا ت کی وصولی کے کام پر لگ جائیں۔ جب حضرت عباس ؓ نے حضور ﷺ سے یہ گزارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں تو آپ کو لوگوں کے گناہوں کے دھو ون جمع کرنے کے کام پر نہیں لگا سکتا۔ “ فضل بن الع اس اور عبدالملطلب بن ربیعہ بن الحارث نے حضور ﷺ سے گزارش کی تھی کہ انہیں صدقات کی وصولی پر لگادیا جائے تاکہ انہیں بھی اس میں سے کچھ مال بطور معاوضہ ہاتھ آجائے۔ آپ نے ان سے فرمایا : ” آل محمد ﷺ کے لئے صدقات حلال نہیں ہیں۔ “ آپ نے ان دونوں کو معاوضہ پر صدقات جمع کرنے کے کام سے روک دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابو رافع کو بھی اس کام سے روک دیا تھا اور اس موقع پر فرمایا تھا کہ :” کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان ہی میں س شمار ہوتا ہے۔ جو حضرات بنی ہاشم کے لئے صدقات جمع کرنے کے معاوضہ میں صدقہ کا مال لینے کی اباحت کے قائل ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو صدقات کی وصولی کے کام پر یمن روانہ کیا تھا۔ حضرت جابر ؓ اور ابو سعید ؓ دونوں نے اس کی روایت کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حضرت علی ؓ کا تقرر صدقات کی وصولی اور دیگر امور کی نگرانی کے لئے ہوا تھا۔ ان حضرات کے لئے اس میں کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت علی ؓ نے اپنا معاوضہ صدقات کے مال میں سے وصول کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا ہے (خذ من اموالھم صدقۃ۔ ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرو) اور یہ بات واضح ہے کہ حضور ﷺ صدقات کے مال میں سے معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ جب یمن بھیجے گئے تھے تو قضاء کے محکمہ نیز یمن میں کافروں کے خلاف جنگی اقدامات کے نگران بنائے گئے تھے اس بنا پر یہ عین ممکن ہے کہ انہیں مال فی سے وظیہ دیا جاتا ہو۔ صدقہ کے مال سے وظیفہ نہ دیا جاتا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ مالدار انسان کے لئے صدقات کے مال میں سے اپنا معاوضہ وصول کرنا جائز ہے حالانکہ اس کے لئے صدقہ حلال نہیں ہوتا، اس لئے بنو ہاشم کا معاملہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مالدار شخص صدقہ کا مال لینے کا اہل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر وہ فقیر ہوجائے تو اس کے لئے صدقہ حلال ہوجائے گا اس کے بوعکس بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والا شخص کسی حالت میں بھی صدقہ لینے کا اہل نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ صدقات جمع کرنے والا اپنا معاوضہ صدقہ کے طور پر وصول نہیں کرتا بلکہ اپنی کارکردگی کی اجرت وصول کرتا ہے جس طرح بریدہ ؓ سے مروی ہے کہ ان کے پاس اگر صدقہ کی کوئی چیز آتی تو وہ اس میں سے کچھ حصہ ہدیہ کے طور پر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیج دیتیں۔ اور حضور ﷺ یہ فرماکر اسے قبول کرلیتے کہ (ھی لھا صدقۃ ولنا ھدیۃ۔ یہ چیز بریرہ ؓ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ) اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ صدقہ پہلے بریرہ ؓ کی ملکیت میں پہنچ جاتا تھا اور وہ پھر وہ اسے حضور ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیج دیتی تھیں۔ اس طرح صدقہ کرنے والے کی ملکیت اور حضور ﷺ کی ملکیت کے درمیان ایک اور ملکیت کا واسطہ آجاتا تھا۔ جبکہ زیر بحث صورت میں صدقات کی وصولی کا کام کرنے والے کی ملکیت اور جس شخص سے یہ صدقہ وصول کیا گیا ہے اس کی ملکیت کے درمیان کوئی اور واسطہ نہیں ہے اس لئے کہ یہ صدقہ پہلے فقراء کی ملکیت میں نہیں پہنچتا اور پھر وہاں سے کام کرنے والے کی ملکیت میں نہیں آتا۔ ان فقراء کا بیان جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے قول باری ہے (انما الصدقت للفقرآء والمساکین) ظاہر آیت ان تمام افراد کو زکوٰۃ دینے کے جواز کا مقتضی ہے جنہیں فقیر اور مسکین کا اسم شامل ہوتا ہے۔ خواہ وہ قریب یعنی رشتہ دار ہو یا بعید رشتہ دار نہ ہو۔ لیکن بعض رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کی ممانعت پر دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنے والد کو زکوٰۃ نہیں دے گا اس میں دادا، پردادا اور اس سے اوپر کے دادے شامل ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے والد کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے گا خواہ وہ نیچے تک کیوں نہ چلا جائے۔ اسی طرح اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے گا۔ امام مالک، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ کوئی شخص ایسے کسی فرد کو زکوٰۃ نہیں دے گا جس کا نان و نفقہ اس کے ذمے ہو۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم اپنے ان رشتہ داروں کو نہیں دے گا جو اس کے وارث بنتے ہوں البتہ ایسے رشتہ دار جو اس کے وارث نہ بنتے ہوں اور نہ یہ اس کے عیال میں شامل ہوں، انہیں اپنی زکوٰۃ دے سکتا ہے اوزاعی کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم اپنے فقیر رشتہ داروں سے باہر نہیں دے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں داخل نہ ہوں۔ زکوٰۃ کے سوا اپنے دوسرے مال سے اپنے موالی پر صدقہ کرے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایک شخص اپنا واجب صدقہ اس شخص کو نہیں دے گا جس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے ذمہ ہے۔ المزنی نے امام شافعی سے اپنی کتاب ” المختصر “ میں بیان کیا ہے کہ انسان اپنی زکوٰۃ اس رشتہ دار کو دے سکتا ہے جس کا نفقہ اس پر لازم نہ ہو لیکن وہ رشتہ دار والد، ولد اور زوجہ کے ماسوا ہو۔ اگر ایسے رشتہ دار ضرورت مند ہوں تو وہ دوسروں کی بہ نسبت زکوٰۃ کے زیادہ حق دار ہوں گے خواہ زکوٰۃ دینے والا ان پر رضاکارانہ طور پر اپنا مال کیوں نہ خرچ کرتا ہو۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top