Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
انما الصدقت للفقرا والمسکین صدقات تو صرف غریبوں کیلئے ہیں اور مسکینوں کیلئے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ آیت سابق میں نکتہ چینی کرنے سے مراد ہے تقسیم زکوٰۃ پر نکتہ چینی کرنی ‘ مال غنیمت کی تقسیم پر نکتہ چینی مراد نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : آیت کی مراد صرف یہ ہے کہ مصرف صدقات فقط غریب لوگ ہیں ‘ غنی لوگ مستحق نہیں ہیں۔ یعنی فقیر اس کو کہتے ہیں جو غنی نہ ہو ‘ خواہ اس کے پاس مال بالکل نہ ہو ‘ نادار ہو یا کچھ مال ہو (مگر اتنا نہ ہو کہ غنی ہوجائے) گویا لفظ فقیر ‘ مسکین اور دوسرے اصناف مستحقین سے عام ہے۔ اکثر حنفیہ قائل ہیں کہ فقیر وہ ہے جس کے پاس نصاب زکوٰۃ نہ ہو ‘ نصاب سے کم مال ہو۔ میرا قول امام ابوحنیفہ کے مذہب سے زیادہ موافق ہے کیونکہ امام صاحب کے نزدیک فقرء کا اعتبار قرضدار کیلئے بھی ہے اور مجاہد کیلئے بھی (یعنی فقیر کا لفظ ان دونوں کو بھی شامل ہے) میرے قول کی تائید حضرت معاذ کے واقعہ سے ہوتی ہے۔ امام بخاری ‘ امام مسلم اور اصحاب السنن نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا : تم ایسے لوگوں کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں (اوّل) لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت کی طرف دعوت دینا ‘ اگر وہ مان جائیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر ہر شبانہ روز میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ‘ اگر وہ (یہ بھی) مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے غنی (صاحب نصاب) لوگوں سے لی جائے گی اور انہی کے فقراء (جو مالک نصاب نہ ہوں ‘ ان) کو بانٹ دی جائے گی۔ زکوٰۃ میں سب سے بڑھیا جانور نہ لینا ‘ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا۔ مظلوم کی بددعا (براہ راست اللہ تک پہنچتی ہے ‘ اس کے) اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی رو سے زکوٰۃ لینے والے کا مسلم ہونا ضر وری ہے ‘ ایمان لازم ہے۔ باجماع علماء غیرمسلم کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ‘ خواہ غیر مسلم ذمی ہو یا حربی۔ البتہ زہری اور ابن شبرمہ کے نزدیک ذمی کافر کو زکوٰۃ دینا درست ہے کیونکہ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ کی تشریح میں حضرت عمر کا قول آیا ہے کہ فقراء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے اپاہج ‘ ناکارہ ہوں لیکن چونکہ بعد کو ان دونوں بزرگوں کے قول کے خلاف اجماع علماء ہوچکا ہے ‘ اسلئے زہری اور ابن شبرمہ کا قول ناقابل اعتبار ہے۔ ایک شبہ : امام ابوحنیفہ کے نزدیک حدیث آحاد سے قرآنی نص پر زیادتی نہیں کی جاسکتی اور قرآن میں صراحۃً لفظ فقراء آیا ہے (مسلم ہوں یا غیر مسلم) پھر ایمان کی شرط لگا کر قرآن کی صراحت پر زیادتی کیوں کی گئی۔ جواب : آیت یَنْھَا کُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ کی وجہ سے آیت اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ سے حربی کافروں کی تخصیص تو باجماع علماء پہلے ہی کرلی گئی تھی اور مخصوص البعض آیت کی مزید تخصیص خبر آحاد سے امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے ‘ اسلئے الفقراء سے مراد وہی فقراء ہیں جو مسلم ہوں غیر مسلم نہ ہوں۔ ہاں جو خیرات فرض نہیں ‘ وہ بالاجماع کافروں کو بھی دی جاسکتی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : لاَ یَنْھَا کُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْن الخ۔ رہی حضرت معاذ والی حدیث تو اس میں صرف فرض زکوٰۃ مراد ہے ‘ نفل خیرات مراد نہیں ہے مگر چونکہ آیت اِنَّمَا یَنْھَا کُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ الخ میں حربیوں سے سلوک کرنے کی ممانعت آگئی ہے ‘ اسلئے نفل خیرخیرات بھی غیر مسلم حربیوں کو نہیں دی جاسکتی۔ باقی فرض زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے واجب صدقات جیسے روزہ کا فطرہ ہر طرح کے کفارے اور تدر وغیرہ تو امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ان کا حکم بھی فرض زکوٰۃ کی طرح ہے ‘ کیونکہ ان حضرات کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف امام ابوحنیفہ قائل ہیں کہ یہ صدقات واجبہ ذمی کو دئیے جاسکتے ہیں ‘ کیونکہ آپ کے نزدیک واجب کا درجہ فرض سے کم ہے (فرض وہ حکم ہوتا ہے جس کا ثبوت قطعی دلیل سے ہو اور بالکل اس میں شک نہ ہو اور واجب حکم کا ثبوت دلیل قطعی سے تو ہوتا مگر قابل شک ہوتا ہے) اور حدیث معاذ میں صرف فرض زکوٰۃ مراد ہے۔ صرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے ہی آپ کا تقرر ہوا تھا۔ جب لفظ فقراء و مساکین اور دوسرے ان تمام اقسام کو شامل ہے جن کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے اور یہ لفظ سب سے عام ہے تو والفقراء کے بعد والمساکین الخ کو ذکر کرنے کی ضرورت محض ان اقسام کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے ہوئی ‘ جیسے عام پر خاص کا عطف خاص کی اہمیت کے پیش نظر کردیا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوِ الْوُسْطٰی۔ ہم ذیل میں مساکین اور دوسرے اقسام کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کرنی چاہتے ہیں۔ مسکین سے مراد وہ غریب آدمی ہے جو لپٹ چمٹ کر ‘ اصرار کے ساتھ سوال نہ کرے۔ سکون اور سکینہ سے مشتق ہے۔ مسکین سوال کیلئے (اصرار کے ساتھ) چونکہ حرکت نہیں کرتا ‘ اسلئے اس کو مسکین کہا جاتا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جو مارا مارا پھرے ‘ ایک دو لقموں کی طلب یا ایک دو چھواروں کی خواہش اس کو لئے لئے پھرے ‘ بلکہ مسکین وہ ہے جس کو بقدر کفایت نہ ملتا ہو اور کوئی اس کی حالت سے واقف بھی نہ ہو کہ کچھ خیرخیرات دے دے اور خود وہ کھڑا ہو کر کسی سے مانگتا نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسکین بھی ایک طرح کا فقیر ہی ہوتا ہے اور چونکہ اس کو دینا دوسرے غریبوں کو دینے سے اہم ہے ‘ اسلئے الفقراء کے بعد المساکین کا ذکر کیا گیا۔ اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کیلئے اللہ نے (تفصیل کے ساتھ آیت ذیل میں) فرمایا : لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْبًا فِی الْاَرض یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَا ھُمْ لاَ یَسَأَلُوْنَ النَّاسَ الْحَافًا۔ الحافکا معنی ہے (لپٹ جانا) اصرار کرنا ‘ زاری کرنا۔ ایک شبہ : بھیک مانگنے والے فقیر پر بھی لفظ مسکین کا اطلاق ہوتا ہے۔ بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے تین اسرائیلیوں کا قصہ نقل کیا ہے جن میں ایک مبروص تھا ‘ دوسرا گنجا ‘ تیسرا اندھا۔ یہ حدیث لمبی ہے ‘ اس میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ ایک مسکین آدمی نے کہا : سفر کی حالت میں میرے (کمائی ‘ آمدنی اور دولت وغیرہ کے تمام) ذرائع منقطع ہوگئے۔ میرے پاس اتنا بھی نہیں کہ وطن تک پہنچ جاؤں۔ بس اوّل اللہ کی مدد سے اور پھر تیری مدد سے وطن پہنچ سکتا ہوں۔ میں اس اللہ کے نام پر جس نے تجھے حسن اور خوبصورت جلد (واپس) دی ہے ‘ درخواست کرتا ہوں کہ مجھے تو ایک اونٹ دے دے جس سے میں سفر کرلوں۔ جواب : (ا) سابق الذکر حدیث میں اس لفظ مسکین کی مراد بیان کی گئی ہے جو آیت میں مذکور ہے۔ غنا کا لغوی مفہوم نہیں بیان کیا گیا ہے (اور مؤخر الذکر اس حدیث میں لفظ مذکور لغوی معنی کے اعتبار سے استعمال کیا گیا ہے) (2) مؤخر الذکر حدیث میں لفظ مسکین کا استعمال مجازی طور پر کیا گیا ہے (یعنی غریب آدمی خواہ الحاح وزاری کے ساتھ ہی مانگتا ہو) مسکین کے مفہوم میں کسی قدر صاحب مال ہونا داخل نہیں ہے (یعنی مسکین کا یہ معنی نہیں کہ اس کے پاس کچھ مال بھی ہو جو نصاب سے کم ہو) جیسا کہ بعض شافعیہ کا قول ہے کہ فقیر وہ ہے جس کے پاس بالکل مال نہ ہو اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ مال بھی ہو ‘ کیونکہ کفارات کے متعلق اللہ نے جو فَاِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ اور اِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًَا فرمایا ہے۔ ان سے مراد باجماع علماء فقراء ہیں ‘ خواہ ان کے پاس کچھ مال ہو یا بالکل نادار ہوں۔ اس کے علاوہ آیت اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ میں وہ فقیر مراد ہے جو خاک نشین یا خاکسار ہو ‘ مٹی پر پڑا رہتا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسکین کے مفہوم میں کسی قدر مالدار ہونا ضروری نہیں۔ نہ لفظ مسکین میں بالکل نادار ہونا داخل ہے جیسا کہ بعض احناف کا قول ہے کیونکہ آیت اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فکانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْر بتارہی ہے کیونکہ کشتی والے مسکین اس کشتی کے مالک تھے ‘ اس کے باوجود اللہ نے ان کو مسکین فرمایا۔ یہ کہنا کہ کشتی ان کی ملک نہ تھی ‘ وہ اجیر تھے یا مانگ کر کہیں سے لائے تھے ‘ ظاہر نص کے خلاف ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مسکین کی حالت فقیر سے کچھ اچھی ہوتی ہے ‘ انہوں نے استدلال میں احادیث ذیل پیش کی ہیں۔ بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ کی روایت سے اور ابو داؤد ‘ نسائی ‘ ابن حبان اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے نیز ابن حبان و حاکم نے حضرت ابوبکرہ ‘ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کو ابن حبان نے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فقر سے پناہ مانگی۔ اور یہ بھی حضور ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! مجھ مسکینی کی حالت پر زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں مجھ پر موت بھیج۔ یہ حدیث ترمذی نے حضرت انس کی روایت سے ___ اور ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید کی وساطت سے بیان کی ہے (دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر فقر مسکینی سے برا نہ ہوا تو رسول اللہ ﷺ فقر سے پناہ کے اور مسکینی کی حالت میں زندگی و موت کے خواستگار نہ ہوتے) ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فقر سے پناہ مانگی ہے ‘ اس سے نفس کا فقیر ہونا مراد ہے (یعنی دل کے فقیر ہونے سے پناہ مانگی ‘ ناداری اور مفلسی مراد نہیں ہے) کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : استغنا دل کا استغنا ہے (یعنی اگر دل فقیر ہو تو کتنا ہی مالدار ہو ‘ وہ فقیر ہی رہے گا اور دل غنی ہو تو کتنا ہی نادار ہو ‘ وہ سارے جہان سے بےنیاز رہے گا) یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فقر سے پناہ مانگنے سے مراد ہے : فقر کی آزمائش اور ناداری کے فتنہ سے پناہ مانگنا ‘ مفلسی سے پناہ مانگنا مراد نہیں ہے۔ اسی طرح جس مسکینی کی دعا فرمائی ‘ اس سے مراد نفس مسکینی نہیں بلکہ مسکینی کی بعض خصوصی صفات صبر ‘ توکل ‘ رضا بالقضا وغیرہ مراد ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ حضرت انس و حضرت ابو سعید کی حدیث کی سند ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو ضعیف کہا ہے اور ابن جوزی نے تو اس کو موضوعات میں داخل کیا ہے کیونکہ (رسول اللہ ﷺ کی دعا رد نہیں ہوسکتی اور) وفات کے وقت حضور ﷺ محتاج نہ تھے ‘ خود مکتفی تھے (معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند ناقابل اعتماد ہے) ۔ اس کے علاوہ اللہ نے (بطور منت نہی رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے) فرمایا ہے : وَوَجَدَکَ عَآءِلاً فَاَغْنٰی اللہ نے آپ کو محتاج پایا ‘ پھر غنی فرما دیا۔ والعاملین علیھا اور ان کارکنوں کیلئے جو صدقات پر مقرر ہوں۔ اللہ نے (تمام) محصلین زکوٰۃ اور ان کے مددگاروں اور کارندوں کو مجازاً فقراء کے ذیل میں شمار کیا ‘ خواہ محصلین زکوٰۃ مالدار ہی ہوں ‘ تب بھی فقراء کے ذیل میں ان کا مجازاً شمار کیا جائے گا کیونکہ زکوٰۃ کو وصول کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کے معاملہ میں محصلین زکوٰۃ فقراء کے وکیل (ایجنٹ) ہوتے ہیں ‘ انہی کے کام میں مشغول رہتے ہیں ‘ لہٰذا ان کا حق محنت ادا کرنا فقراء پر واجب ہے گویا یہ حکماً (اور ضمناً ذیلی طور پر) فقراء ہوتے ہیں۔ محصل زکوٰۃ کو کتنا دیا جائے امام شافعی نے فرمایا : محصل زکوٰۃ کا عمل کم ہو یا زیادہ ‘ بہرحال کل صدقات کا آٹھواں حصہ محصلین زکوٰۃ اور ان کے مددگاروں کو دیا جائے گا۔ امام شافعی کے اس قول کی بناء اس نظریہ پر ہے کہ زکوٰۃ کا مال آٹھوں اقسام کو برابر برابر دیا جائے۔ ہماری طرف سے اس قول کی تردید عنقریب آئے گی۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر ائمہ نے فرمایا : محصل نے جتنی مدت کام میں صرف کی ہو ‘ اتنی مدت کی ضروریات پوری کرنے کے بقدر اس کو دیا جائے۔ مثلاً کسی نے تحصیل کے کام میں ایک دن صرف کیا تو اس کو ایک دن کا معاوضہ بقدر کفایت دیا جائے گا اور ایک سال صرف کیا تو ایک سال کی معاش بقدر کفایت پانے کا مستحق قرار پائے گا ‘ کیونکہ زکوٰۃ کے مال میں غنی کا کوئی حق نہیں۔ عامل کو اس کے عمل کا صرف اتنا اجر دیا جائے گا جتنا فقیروں کے کام میں وقت صرف کرنے سے اس کا واجبی ہوگا۔ گویا یوں کہو کہ زکوٰۃ تو فقراء کا حق ہے ‘ عامل کو فقیروں کے حق میں سے بقدر اجر و کفایت دیا جائے گا۔ اگر اس کی اجرت بقدر کفایت اتنی ہو کہ حاصل کی ہوئی زکوٰۃ کے کل مال کا اس کو استحقاق ہوجاتا ہے تو باتفاق علماء کل مال زکوٰۃ اس کو نہیں دیا جاسکتا ‘ آدھا دیا جائے گا ‘ آدھے سے زائد ہرگز نہیں دیا جائے گا۔ نصف سے زائد کل کے حکم میں ہوتا ہے۔ اگر اس سے زیادہ دیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے تحصیل زکوٰۃ فقراء کیلئے نہیں کی ‘ اپنے لئے کی۔ اس طرح اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ والمؤلفۃ القلوبھم اور ان لوگوں کیلئے جن کی دلجوئی منظور ہو۔ بغوی نے لکھا ہے : مؤلفۃ القلوب دو طرح کے تھے : مسلمان اور کافر۔ مسلمان مؤلفۃ القلوب بھی دو طرح کے تھے : ایک وہ مسلمان جو اسلام میں داخل ہوتے وقت ضعیف الایمان تھے ‘ جیسے عیینہ بن بدر فزاری اوراقرع بن حابس اور عباس بن مرداس۔ دوسرے وہ مسلمان جن کا ایمان مسلمان ہونے کے وقت ہی مضبوط تھا مگر وہ اپنی اپنی قوموں کے سردار تھے (اور قوم والے کچھ ضعیف الایمان تھے) رسول اللہ ﷺ دونوں گروہوں کو دیا کرتے تھے۔ اوّل کو ان کی دلجمعی اور ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اور دوسرے گروہ کو ان کی قوم کی تالیف قلب ایمان کی حفاظت اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو ایمان و اسلام کی طرف راغب بنانے کیلئے ‘ جیسے حضرت عدی بن حاتم اور حضرت زبرقان بن بدر کو ان کی قوم کی تالیف قلوب اور ان جیسے دوسروں کو اسلام کی طرف راغب بنانے کیلئے دیا کرتے تھے اور زکوٰۃ کے مال میں سے نہیں دیتے تھے بلکہ مال غنیمت کے پچیسویں حصہ میں سے اور مال فے میں سے جو رسول اللہ ﷺ کیلئے مخصوص تھا ‘ عطا فرماتے تھے۔ مسلمان مؤلفۃ القلوب کی دوسری شاخ میں وہ مسلمان بھی داخل تھے جن کے ہاں کافروں کے مقابلہ کیلئے کوئی مسلمان فوج اتری ہو مگر مسلمانوں کی مقامی امداد کے بغیر وہ لشکر اپنے نشانہ پر نہ پہنچ سکتا ہو اور مقامی مسلمان جہاد میں شرکت کیلئے تیار نہ ہوں ‘ خواہ اپنی بدحالی کی وجہ سے یا ایمان کی کمزوری کے سبب سے ‘ ایسی صورت میں حاکم کیلئے جائز ہے کہ مجاہدوں کے حصہ کے مال غنیمت میں سے اور بقول بعض مؤلفۃ القلوب کے زکوٰۃ کے حصہ میں سے ان مسلمانوں کو کچھ دے دے۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم اپنی قوم کے تین سو زکوٰتی اونٹ لے کر حضرت ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ‘ صدیق اکبر نے ان میں سے تیس اونٹ عدی کو دے دئیے۔ غیر مسلم مؤلفۃ القلوب سے مراد وہ منکرین ہیں جن کی طرف سے شر کا اندیشہ یا مسلمان ہونے کی امید ہو ‘ امام مسلمانوں کو ان کے شر سے بچانے یا ان کے مسلمان ہونے کی امید میں کچھ دے دے۔ رسول اللہ ﷺ ایسے لوگوں کو مال غنیمت کے پچیسویں حصہ میں سے کچھ دیا کرتے تھے ‘ جیسے صفوان بن امیہ کی اسلام کی طرف رغبت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اس کو عطا فرمایا تھا۔ لیکن اب غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب بنانے کیلئے صدقات میں سے کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ اللہ نے اسلام کو غلبہ مرحمت فرما دیا ہے ‘ اسلئے زکوٰۃ کا روپیہ دے کر ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لئے عکرمہ ‘ شعبی ‘ امام مالک ‘ سفیان ثوری ‘ اسحاق بن راہویہ اور اصحاب الرائے اور دوسرے علماء قائل ہیں کہ (غیرمسلم) مؤلفۃ القلوب کا زکوٰۃ میں حصہ اب ساقط ہوچکا۔ کچھ علماء کے نزدیک ایسے مؤلفۃ القلوب کا اب بھی حصہ باقی ہے۔ حکم ساقط نہیں ہوا ‘ یہ قول حسن بصری ‘ زہری ‘ محمد بن علی ‘ زین العابدین بن امام حسین اور ابو ثور کا ہے۔ امام احمد نے فرمایا : اگر مسلمانوں کو اب بھی اس کی ضرورت ہو تو (غیر مسلموں کو) دیا جاسکتا ہے۔ اکثر کتابوں میں مؤلفۃ القلوب کے مسئلہ میں علماء کا اختلاف مذکور ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ ساقط ہوچکا ‘ اسلام کو اب تالیف قلوب کیلئے زکوٰۃ کا مال دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک روایت میں امام مالک اور امام شافعی کے اقوال بھی یہی آئے ہیں۔ امام مالک کا قول دوسری روایت میں آیا ہے کہ اگر کسی بستی یا سرحد میں مسلمانوں کو اس کی اب بھی ضرورت ہو تو تالیف قلوب کیلئے زکوٰۃ کا مال دیا جاسکتا ہے۔ جب علت موجود ہوگی تو حکم بھی لوٹ آئے گا۔ ایک روایت میں امام احمد کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ دوسری روایت میں امام احمد کا قول یہ آیا ہے اور امام شافعی نے بھی یہی فرمایا اور اکثر شوافع کا بھی یہی مختار ہے جیسا کہ منہاج میں آیا ہے کہ مؤلفۃ القلوب مصرف زکوٰۃ اب بھی ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : جو شخص مسلمان ہوگیا اور اس کا ایمان (اسلام میں داخل ہونے کے وقت) ضعیف ہو یا وہ باوجاہت شخص ہو کہ اس کو دینے سے دوسروں کو اسلام کی طرف رغبت ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے۔ امام شافعی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ غیر مسلم مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ کا مال دینا آپ کے نزدیک بھی اسی طرح ناجائز ہے جس طرح غیر مسلم فقراء و مساکین وغیرہ کو۔ اور ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہ اور آپ کے ہم خیال علماء مسلم غریب مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ کا مال دینے کو ناجائز نہیں قرار دیتے۔ مالدار مؤلفۃ القلوب کو دینے میں اختلاف آراء ہے۔ امام شافعی کے نزدیک جائز ہے ‘ کیونکہ باقی اصناف مستحقین میں فقر کو ضروری نہیں قرار دیتے اور امام ابوحنیفہ ناجائز کہتے ہیں ‘ آپ کے نزدیک ہر مصرف زکوٰۃ میں فقر کا موجود ہونا معتبر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا جواز منسوخ نہیں اور کوئی نسخ کا قائل نہیں اور نسخ کا امکان بھی ایسے ہے جبکہ کوئی ناسخ موجود نہیں۔ البتہ اگر امام ابوحنیفہ کے قول کا مطلب یہ قرار دیا جائے کہ کافر مؤلفۃ القلوب کو دینے کی اجازت منسوخ ہوگئی تو اس کی صحت ممکن ہے۔ ایک شبہ : مسلم اور ترمذی نے حضرت سعید بن مسیب کی روایت سے صفوان بن امیہ کا قول نقل کیا ہے کہ جس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کی ذات میری نظر میں سب سے زیادہ مبغوض تھی ‘ آپ نے مجھے مال دیا اور برابر دیتے رہے ‘ یہاں تک کہ آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہوگئے۔ یہ حدیث صراحت کے ساتھ بتارہی ہے کہ حضور ﷺ غیرمسلموں کو حالت کفر میں عطا فرماتے تھے۔ ابن اثیر نے الصحابہ میں یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفوان کو اس کے مسلمان ہونے سے پہلے دیا تھا۔ نووی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفوان بن امیہ کو حنین کے مال غنیمت میں سے دیا تھا اور صفوان اس زمانہ میں کافر تھے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے : رافعی کا یہ دعویٰ کرنا کہ رسول اللہ ﷺ نے صفوان کو زکوٰۃ کے مال میں سے دیا تھا ‘ بےبنیاد ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے دیا تھا۔ یعنی آپ نے اپنے خمس (5؍1) کے خمس میں سے دیا تھا۔ بیہقی ‘ ابن سید الناس اور ابن کثیر نے بھی اسی پر جزم کیا ہے۔ ابن ہمام نے بیان النسخ میں لکھا ہے کہ طبرانی نے اپنی سند سے بیان کیا کہ جب عیینہ بن حصین حضرت عمر کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ حق تمہارے رب کی طرف سے آچکا ‘ اب جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے۔ آپ کی مراد یہ تھی کہ اب مؤلفۃ القلوب کو دینے کا حکم نہیں رہا۔ ابن ابی شیبہ نے شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ مؤلفۃ القلوب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھے ‘ حضرت ابوبکر کے دورخلافت میں ختم ہوگئے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ عیینہ اوراقرع حضرت ابوبکر کی خدمت میں کوئی زمین طلب کرنے کیلئے آئے۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی ‘ مگر حضرت عمر نے وہ تحریر (لے کر) پھاڑ ڈالی اور فرمایا : یہ تو رسول اللہ ﷺ تم کو اسلام پر قائم رکھنے کیلئے دیا کرتے تھے۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ عنایت کردیا اور تمہاری طرف سے (مسلمانوں کو) بےنیاز کردیا۔ اب اگر تم اسلام پر قائم رہو گے تو بہتر ہے ‘ ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ یہ لوگ لوٹ کر حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور عرض کیا : خلیفہ آپ ہیں یا عمر ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : وہ اگر چاہیں (تو وہ ہی خلیفہ ہیں) چناچہ آپ نے حضرت عمر کے فیصلہ کی تائید کی اور کسی صحابی نے ان دونوں بزرگوں کے فیصلہ کا انکار نہیں کیا۔ میں (اس کے جواب میں) کہتا ہوں کہ حضرت عمر کا قول تو آیت کو منسوخ نہیں کرسکتا اور آیت فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ میں مؤلفۃ القلوب کے حصہ کے منسوخ ہوجانے پر کوئی دلالت نہیں اور ایسا ہونا ممکن بھی کیسے ہوسکتا ہے ‘ سورة الکہف تو مکی ہے اور آیت فمن شآء سورة الکہف کی ہے اور سورة التوبہ تمام سورتوں کے بعد نازل ہوئی اور مؤلفۃ القلوب کو سورة التوبہ میں ہی قائم کیا گیا ‘ پھر مقدم النزول ‘ مؤخر النزول کی ناسخ کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ عیینہ اوراقرع کا قصہ زمین کی طلب سے تعلق رکھتا ہے ‘ زکوٰۃ سے اس کا تعلق نہیں اور مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ میں حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ایک حکم دوسرے سے غیر متعلق ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حکم باقی ہے لیکن آیت میں کافر مؤلفۃ القلوب مراد نہیں ہیں۔ صرف مسلمان مؤلفۃ القلوب سے حکم کا تعلق ہے ‘ اسی لئے کسی کافر کو زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ دینا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔ ہم کہتے ہیں : جب آیت کے حکم کو مسلمان مؤلفۃ القلوب کے ساتھ خاص قرار دے دیا گیا اور کافر مؤلفۃ القلوب کو حکم کے عموم سے الگ کردیا گیا تو پھر غنی کو بھی حکم سے الگ کردینا ضروری ہے کیونکہ مالداوں کیلئے زکوٰۃ کا حلال نہ ہونا مختلف احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت معاذ والی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان آیا ہے کہ ان کے مالداروں سے لیا جائے اور ان ہی کے فقراء کو لوٹا دیا جائے۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ زکوٰۃ دینے کا حکم صرف غریب مؤلفۃ القلوب کو ہے اور استحقاق زکوٰۃ کیلئے مؤلفۃ القلوب کا غریب ہونا ضروری ہے۔ اس صورت میں المؤلفۃ القلوبھم بھی فقراء کی ایک شاخ ہوگی اور اس کا الفقراء پر عطف ایسا ہی ہوگا جیسا خاص کا عطف عام پر ہوتا ہے۔ وفی الرقاب اور باندی غلاموں کی گردنیں چھڑانے کیلئے۔ للرقاب نہیں فرمایا ‘ فی الرقاب فرمایا۔ فِیْ ظرنیت کیلئے آتا ہے ‘ اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ گزشتہ تینوں اصناف سے یہ چاروں اصناف زیادہ مستحق زکوٰۃ ہیں۔ گویا زکوٰۃ کا یہی ظرف ہے ‘ انہی کے اندر زکوٰۃ ہونی چاہئے۔ الرقاب سے مراد مکاتب باندی غلام ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام شافعی اور امام احمد کی یہی رائے ہے۔ ابن وہب کی روایت میں امام مالک کا قول بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔ مکاتب قطعاً نادار ہوتے ہیں ‘ خواہ ان کے پاس بقدر نصاب مال بھی ہوجائے لیکن بدل مکاتبت ادا کرنے کیلئے نہ ہو ‘ ایسی حال میں مال زکوٰۃ دے کر ان کی گلوخلاصی کی جائے۔ دوسری روایت میں آیا ہے : وَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مَّال اللّٰہِ اَلَّذِیْٓ اٰتَاکُمْ ۔ امام مالک کا (قوی) قول ہے کہ الرقاب سے مراد خالص باندی غلام ہیں (مکاتب 1 ؂ مراد نہیں ہیں) مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال سے بردے (باندی غلام) خرید کر آزاد کئے جائیں۔ ایک روایت میں امام احمد کا قول بھی یہی آیا ہے مگر اس قول سے آپ نے رجوع کرلیا تھا۔ ابو عبیدہ نے کتاب الاموال میں ابو الاشرس کی سند سے بحوالۂ مجاہد بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : کوئی ہرج نہیں تھا اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ حج کرنے کیلئے دے دے یا بردے خرید کر آزاد کر دے۔ ابو معاویہ نے اعمش کی وساطت سے مجاہد کی روایت اسی طرح نقل کی ہے۔ ابوبکر ابن عیاش نے اعمش کی وساطت سے ابو نجیح کی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ مجاہد نے کہا : حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ سے (باندی غلام خرید کر) آزاد کر۔ عبدہ بن سلیمان نے بھی یہی روایت ابو معاویہ کی متابعت میں بیان کی ہے۔ عبدہ از اعمش از ابو الاشرس کی روایت میں حضرت ابن عباس کا قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ زکوٰۃ کا مال نکال کر ہمارے حج کا سامان اس سے تیار کر دو ۔ میمون کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ سے پوچھا : اگر کوئی اپنے مال کی زکوٰۃ سے بردے خرید کر آزاد کر دے یا مسافروں کیلئے صرف کر دے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت ابو عبد اللہ نے جواب دیا : ہاں ‘ جائز ہے۔ حضرت ابن عباس اس کے قائل تھے اور اس کے خلاف کہنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ جلالی نے کہا : مجھ سے احمد بن ہاشم نے کہا کہ امام احمد نے فرمایا : پہلے میرا بھی خیال تھا کہ زکوٰۃ کے مال سے بردے خرید کر آزاد کئے جاسکتے ہیں ‘ لیکن پھر میں نے اس خیال سے رجوع کرلیا۔ امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ حضرت ابن عباس کا قول تو اس کے جواز پر دلالت کر رہا ہے۔ فرمایا : حضرت ابن عباس کا قول مضطرب ہے (یعنی قابل وثوق نہیں ‘ اس قول کے الفاظ یا معنی میں اضطراب ہے) ۔ امام مالک کے نزدیک مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کئے ہوئے باندی غلام کا حق دلاؤ ‘ مسلمانوں کی جماعت کو ہوگا۔ یعنی بیت المال میں داخل کیا جائے گا ( مطلب یہ کہ اگر ایسے آزاد غلام کے مرنے کے بعد اس کے واجب التقدیم وارث موجود نہ ہوں گے تو اس کا متروکہ مال بیت المال میں داخل کیا جائے گا) دوسری روایت میں امام مالک کا قول آیا ہے کہ حق دلاؤ ‘ آزاد کرنے والے کو پہنچے گا۔ حافظ نے لکھا ہے کہ الرقاب کی تفسیر میں علماء کا ایک تیسرا قول بھی آیا ہے ‘ وہ یہ کہ زکوٰۃ کے مال کے دو حصے کئے جائیں ‘ آدھے مال سے تو مسلم مکاتب کے بدل کتابت ادا کرنے میں مدد کی جائے اور آدھے مال سے مسلمان باندی غلام خرید کر آزاد کئے جائیں۔ ابن ابی حاتم نے اور کتاب الاموال میں ابو عبیدہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ زہری نے عمر بن عبدالعزیز کو یہی لکھا کر بھیجا تھا۔ میں کہتا ہوں : حضرت معاذ کی روایت میں جو رسول اللہ ﷺ کا فرمان آیا ہے کہ ان کے مالداروں سے لیا جائے اور انہی کے غریبوں کو لوٹا کر دے دیا جائے ‘ اس سے امام مالک کے قول کی تردید ہوتی ہے۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کی صورت میں ردعلی الفقراء نہ ہوگا۔ رہا حضرت ابن عباس کا قول تو وہ بقول امام احمد بجائے خود مضطرب ہے۔ اس کے باوجود حضرت ابن عباس کی ایک رائے ہے ‘ روایت نہیں ہے۔ ہم نے جو الرقاب کی تفسیر مکاتبین کے لفظ سے کی ہے (اور الرقاب سے مراد مکاتب غلاموں کو قرار دیا ہے) اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو محمد بن اسحاق نے بیان کی ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو ایک مکاتب نے عرض کیا : امیر ! لوگوں کو میرے لئے چندہ کرنے کی ترغیب دیجئے۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس مکاتب کیلئے لوگوں سے اپیل کی ‘ فوراً لوگوں نے اس کیلئے (مال) پھینکنا شروع کردیا۔ کسی نے عمامہ پھینکا ‘ کسی نے ہار ‘ کسی نے انگوٹھی۔ ایک ڈھیر ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے سب مال جمع کرنے کا حکم دیا ‘ پھر اس کو فروخت کرا کر مکاتب کو بقدر مال کتابت دے دیا اور باقی مال غلاموں کی آزادی کیلئے دے دیا ‘ دینے والوں کو واپس نہیں کیا اور فرمایا : یہ تو لوگوں نے گردنیں آزاد کرانے کیلئے دے ہی دیا ہے۔ لیکن اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے کہ امام احمد وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے۔ فرمایا : جان آزاد کر اور گردن چھڑا۔ اس شخص نے دریافت کیا : حضور ﷺ ! یہ دونوں باتیں ایک ہی نہیں ہیں (جان کو آزاد کرنا اور گردن چھڑانا ‘ دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے) فرمایا : نہیں ‘ جان آزاد کرنے کا تو یہ مطلب ہے کہ تنہا تو کسی جان (یعنی باندی غلام) کو آزاد کر دے اور گردن چھڑانے کا یہ مطلب ہے کہ کسی باندی غلام کی قیمت ادا کرنے میں تو حصہ لے۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اس حدیث سے امام مالک کے قول کی تو تائید نہیں ہوتی (کہ الرقاب سے مراد غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ہے ‘ کیونکہ حضور ﷺ نے الرقاب کی تفسیر نہیں فرمائی بلکہ ایک اعلیٰ نیکی کی تعلیم دی ہے) ۔ والغارمین اور قرضداروں کیلئے۔ الغارمین سے مراد باتفاق علماء قرضدار ہیں۔ مگر امام شافعی اور اکثر علماء نے قرضداروں کی تین قسمیں بیان کی ہیں : (1) وہ قرضدار جنہوں نے قرض لے کر گناہ کے راستہ میں خرچ نہیں کیا ہے۔ ایسے قرضداروں کے پاس اگر قرض ادا کرنے کیلئے مال نہ ہو تو بقدر ادائے قرض زکوٰۃ کا مال ان کو دے دیا جائے۔ (2) وہ قرضدار جنہوں نے قرض لے کر کسی نیکی کے راستہ میں یا مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے میں خرچ کیا ہو۔ یہ لوگ خواہ خود مالدار ہوں مگر ان کا قرض زکوٰۃ کے مال سے ادا کیا جاسکتا ہے۔ (3) وہ قرضدار جو گناہ کے راستہ میں خرچ کرنے اور فضول خرچیاں کرنے کی وجہ سے قرضدار ہوئے ہوں ‘ ان کا قرض ادا کرنے کیلئے زکوٰۃ کا مال نہیں دیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے کہ جس قرضدار کے پاس ادائے قرض کے قابل مال نہ ہو ‘ وہ کوئی ہو ‘ کسی وجہ سے قرضدار ہوا ہو ‘ اس کا قرض چکانے کیلئے زکوٰۃ کا مال دیا جاسکتا ہے ‘ کیونکہ الغارمین کا لفظ عام ہے۔ اگر قرض دار کے پاس بقدر ادائے قرض مال نہ ہو تو وہ فقیر ہی ہوگا (خواہ کتنا ہی مالدار ہو) رخصت سفر میں بھی امام اعظم اور دوسرے اماموں کا یہی اختلاف ہے (کہ امام اعظم کے نزدیک سفر طاعت ہو یا سفر اباحت یا سفر معصیت ‘ ہر سفر میں رخصت سے فائدہ اٹھایا جائے اور دوسرے اماموں کے نزدیک سفر معصیت میں رخصت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ‘ نہ قصر صلوٰۃ کا نہ ترک صوم کا) ۔ اگر کسی شخص کے پاس ادائے قرض سے زائد مال ہو اور اتنا زائد ہو کہ اس زائد کی مقدار نصاب زکوٰۃ کو پہنچ جاتی ہو تو امام اعظم اور امام مالک اور امام احمد کے نزدیک اس کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر ایسا شخص ثواب کے کام کیلئے قرض لینے کی وجہ سے قرضدار ہوا ہو تو وہ بجائے خود مالدار ہو اور ادائے قرض سے زیادہ اس کے پاس مال بھی ہو ‘ تب بھی زکوٰۃ کے مال سے اس کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے۔ وفی سبیل اللہ اور جہاد کیلئے۔ اس جگہ بھی لفظ فِیْجو ظرفیت کیلئے موضوع ہے ‘ ترجیح صرف کیلئے ہے۔ امام ابو یوسف ‘ امام شافعی اور جمہور علماء کا قول ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد ہیں : مجاہدین جو اپنے گھر بار سے جدا ہوجاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں۔ امام احمد اور امام محمد کے نزدیک حاجی مراد ہیں۔ امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت ام معقل کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ابو معقل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے والے تھے۔ جب گھر آئے تو میں نے ان سے کہا : آپ واقف ہیں کہ مجھ پر حج لازم ہے (مجھے بھی لے چلئے) وہ مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھ پر حج لازم ہے اور ابو معقل کے پاس جوان اونٹ موجود ہے (مجھے سواری کیلئے دلوا دیجئے) ابو معقل نے کہا : یہ اونٹ تو میں اللہ کی راہ میں دے چکا ہوں ‘ یہ تو اب صدقہ (خیرات یا زکوٰۃ) ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس کو دے دو ‘ یہ اس پر سوار ہو کر حج کو چلی جائے۔ حج بھی فی سبیل اللہ ہے (یعنی راہ خدا کے لفظ میں حج بھی داخل ہے ‘ یا سبیل اللہ سے حج ہی مراد ہے) اس حدیث کی روایت میں ایک راوی ابراہیم بن مہاجر بھی ہے جس کے ثقہ ہونے میں کلام ہے۔ ابو داؤد اور امام احمد نے دوسری سند سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حج وداع کا ارادہ کیا ‘ اس زمانہ میں ہمارا ایک اونٹ تھا ‘ ابو معقل نے اس کو راہ خدا میں مقرر کردیا (یعنی کہہ دیا کہ یہ فی سبیل اللہ ہے) اس کے بعد ابو معقل بیمار ہو کر مرگئے۔ اور رسول اللہ ﷺ حج کو چلے گئے۔ حج کر کے واپس تشریف لائے تو میں خدمت گرامی میں حاضر ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معقل کی ماں ! تو حج کو ہمارے ساتھ کیوں نہیں گئی ‘ کیا مانع ہوگیا ؟ میں نے عرض کیا : ہم نے تیاری تو کی تھی لیکن معقل کے باپ مرگئے۔ معقل کے باپ کے پاس ایک اونٹ بھی تھا جس پر ان کو حج کو جانا تھا مگر انہوں نے اس اونٹ کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کردی۔ فرمایا : تو اسی پر سوار ہو کر کیوں نہ چلی ‘ حج بھی تو اللہ کی راہ میں ہوتا ہے۔ امام شافعی نے حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کو بخاری و مسلم نے بیان کیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :) تم خالد پر ظلم کر رہے ہو ‘ اس نے تو اپنے اسلحہ اور ہتھیار وقف کر رکھے ہیں۔ میں کہتا ہوں : جب فقر تمام مصارف زکوٰۃ میں ضروری ہے (اور ہر مصرف زکوٰۃ کا غریب ہونا لازم ہے) تو بہتر یہی ہے کہ فی سبیل اللہ کے لفظ کو نہ صرف جہاد کیلئے مخصوص قرار دیا جائے نہ حج کیلئے بلکہ عام چھوڑ دیا جائے ‘ خواہ کوئی مصرف خیر ہو ‘ سب کو یہ لفظ شامل ہے۔ لہٰذا غریب طالب علموں کو جو زکوٰۃ دیتے ہیں ‘ وہ بھی فی سبیل اللہ ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ وابن السبیل اور مسافروں کیلئے۔ ابن السبیل سے مراد مسافر ہیں۔ اگر کسی مسافر کے پاس اتنا مال نہ ہو جو زکوٰۃ لینے سے مانع ہو تو اس کو زکوٰۃ دی جائے ‘ خواہ وہ سفر کی حالت میں ہو یا سفر کا ارادہ کر رہا ہو اور ناداری کی وجہ سے سفر نہ کرسکتا ہو۔ اگر کسی کے پاس اور اس کے قبضہ میں اتنا مال ہو جو زکوٰۃ لینے سے مانع ہو اور منزل مقصود پر وہ پہنچ سکتا ہو تو اس کو زکوٰۃ نہ دی جائے ‘ خواہ وہ سفر میں ہو یا برسرسفر۔ اگر کسی کے پاس وطن میں تو بہت مال ہو مگر سفر میں اتنا مال نہ ہو کہ منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہو اور نہ اتنا مال ہو جو زکوٰۃ لینے سے مانع ہو تو اس کو بالاتفاق زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ امام اعظم کے نزدیک ابن السبیل سے اسی قسم کا مسافر مراد ہے۔ زکوٰۃ کا مستحق ہونے کیلئے امام اعظم کے نزدیک فقر قبضہ کافی ہے ‘ یعنی اس کے قبضہ میں اتنا مال نہ ہو جو زکوٰۃ کے استحقاق سے محروم کر دے ‘ خواہ ملکیت میں کتنا ہی مال ہو (بغیر قبضہ کی) ملکیت استحقاق زکوٰۃ سے مانع نہیں۔ لہٰذا جو مالدار شخص اپنے وطن میں ہو (مگر اپنے مال پر اس کا قبضہ نہ ہو) یا دوسروں پر اس کا مال قرض ہو (اور قبضہ میں نہ ہو) تو امام صاحب کے نزدیک ایسا شخص (باوجود مالک مال ہونے کے) نادار اور مفلس ہے ‘ جیسے مالدار مسافر (نادار ‘ حالت سفر میں مفلس) کذا فی المحیط۔ اگر کسی کا مال وطن میں بہت ہو مگر سفر میں اس کے پاس صرف اتنا ہو کہ وطن تک پہنچ سکتا ہو اور جو مال بحالت سفر اس کے پاس ہو ‘ وہ نصاب زکوٰۃ سے کم ہو ‘ اس صورت میں اس کیلئے زکوٰۃ کا مال لینا درست نہیں۔ یہ مسئلہ سب علماہ کا مسلمہ ہے اور اگر اس کے برعکس ہو ‘ یعنی وطن میں بہت مال ہو اور سفر میں اس کے پاس نصاب زکوٰۃ کے بقدر ہو مگر اتنے مال سے وہ منزل مقصود پر نہ پہنچ سکتا ہو ‘ ایسے شخص کیلئے بھی امام اعظم کے نزدیک زکوٰۃ لینا جائز نہیں ‘ خواہ سفر کی حالت ہو یا برسرسفر ہو اور مال دور ہو یا قریب۔ امام شافعی جواز کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال مباح کرنے والی چیز فقر ہے اور یہ شخص فقیر نہیں ہے (نصاب زکوٰۃ کے بقدر اس کے پاس مال موجود ہے ‘ منزل مقصود پر پہنچ سکنے یا نہ پہنچ سکنے کو زکوٰۃ کا مال لینے نہ لینے میں کوئی دخل نہیں) امام شافعی کے نزدیک زکوٰۃ لینے کے جواز کی علت ارادۂ سفر ہے بشرطیکہ اس کے پاس (ارادۂ سفر کے وقت) اتنا مال نہ ہو کہ مسافت سفر طے کرسکے کیونکہ ابن السبیل مصارف زکوٰۃ کا ایک مستقل فرد ہے ‘ فقر کا اس میں اعتبار نہیں ہے) ۔ میں کہتا ہوں : مصرف زکوٰۃ سات ہیں اور یہ سب فقر کے اصناف ہیں (ہر صنف میں فقر کی موجودگی ضروری ہے) حقیقتاً فقراء ہی مصرف زکوٰۃ ہیں (جہاں فقر پایا جائے گا اور کوئی مانع زکوٰۃ نہ ہوگا ‘ وہاں زکوٰۃ کا لین دین جائز ہوگا) مذکورہ اصناف کو زکوٰۃ کا استحقاق محض فقر کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہاں محصلین زکوٰۃ کیلئے غنی نہ ہونے کی شرط نہیں ہے ‘ کیونکہ محصلین زکوٰۃ کو (ان کے کام کی اجرت اور محنت بقدر گذارا حق) دینے والے حقیقت میں فقراء ہیں (اور وصول کنندہ ‘ فقراء کے نائب یا وکیل اور ایجنٹ ہیں جو فقراء کی طرف سے وصول کرتے ہیں اور ان کے خود مالدار یا نادار ہونے کو کوئی دخل نہیں) دراصل یہ فقراء کے مال میں سے اپنا حق محنت لینے والے ہیں (دولت مندوں کی زکوٰۃ میں سے کچھ نہیں لیتے) اور فقراء کا حصر انہی سات اقسام میں نہیں ہے ‘ صرف ان اصناف کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے ان کا ذکر کیا گیا ہے ‘ تو گویا آیت میں زکوٰۃ کا مستحق صرف فقراء کو قرار دیا گیا ہے (خواہ کوئی صنف ہو اور کسی قسم کا فقر ہو) البتہ کوئی سبب ترجیحی ہونا چاہئے۔ تاکہ جس صنف کے فقیر کو زکوٰۃ دی جائے ‘ اس کو دوسرے اصناف پر راجح حق حاصل ہوجائے۔ لہٰذا وہ مسکین جو کسی سے سوال نہیں کرتا ‘ سوال کرنے والے سے ترجیح رکھتا ہے اور مسافر فقراء ‘ مقیم فقیر سے زیادہ حاجت مند اور قابل ترجیح ہوتا ہے۔ اسی طرح مجاہد ‘ حاجی ‘ مکاتب اور مؤلفۃ القلوب دوسروں سے زکوٰۃ کا زیادہ حق رکھتے ہیں حاجی کو حج کیلئے ......... دینے میں حج کی اعانت ہوتی ہے اور حج اسلام کا ایک رکن ہے اور مجاہد کو جہاد کیلئے دینے میں جہاد کرنے کی امداد ہوگی اور جہاد اسلام کے کوہان کی چوٹی ہے اور بردوں کی گردن رہا کرانے کیلئے دینے سے بہت سی بھلائیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ترجیحی اسباب یہی ہیں جو ہم نے ذکر کئے ہیں۔ ان اسباب ترجیح کا ذکر تو ہم نے بطور تمثیل کیا ہے۔ اسباب ترجیح اور بھی ہیں ‘ جیسے قرابت اور رشتہ داری۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : افضل صدقہ وہ ہے جس کو دینے کے بعد غنا قائم رہے اور دینا اپنے عیال سے شروع کرو۔ رواہ البخاری من حدیث ابی ہریرہ و مسلم من حدیث حکیم بن حزام۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک دینار وہ ہے جو تو نے راہ خدا میں خرچ کیا ‘ ایک دینار وہ ہے جو تو نے کسی بردہ کی گلوخلاصی کیلئے خرچ کیا ‘ ایک دینار وہ ہے جو کسی مسکین کو تو نے بطور خیرات دیا ‘ ایک دینار وہ ہے جو تو اپنے گھر والوں کے صرف میں لایا۔ سب سے بڑے اجر والا وہ دینار ہے جو تو اپنے گھر والوں کے صرف میں لایا۔ رواہ مسلم حضرت میمونہ بنت حارث کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں میں نے ایک باندی آزاد کی اور حضور ﷺ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا۔ فرمایا : اگر تو وہ اپنے ماموؤں کو دے دیتی تو تیرے لئے بڑا ثواب ہوتا۔ رواہ البخاری و مسلم فی صحیحہما حضرت سلیمان بن عامر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین کو خیرات دینی ایک خیرات ہے اور رشتہ دار کو دوہری خیرات ہے۔ ایک تو (معمولی) خیرات ‘ دوسرے کنبہ پروری۔ رواہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والدارمی۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! بیرحاء (کا باغ) مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ اللہ کے نام پر میں خیرات کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس کی نیکی اللہ کے پاس میرے لئے جمع رہے گی۔ اب آپ اس میں جیسے اللہ بتائے ‘ تصرف کیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میرے نزدیک تو مناسب یہ ہے کہ تم اس کو اپنے قرابتداروں کو دے دو ۔ حسب ہدایت حضرت ابو طلحہ نے وہ (باغ) اپنے قرابتداروں اور چچا زادوں کو تقسیم کردیا۔ متفق علیہ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top