Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
صدقات کے مصارف کا بیان 60۔” انما الصدقت للفقراء والمسکین “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صدقات کے مستحقین بیان کیے ہیں اور ان کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں ۔ زیاد بن حارث صدائی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی تو ایک شخص آپ (علیہ السلام) کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے صدقات میں سے کچھ دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقات میں نہ اللہ اپنے نبی کے فیصلہ پر راضی ہیں اور نہ کسی اور کے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ کیا اور ان کی آٹھ قسموں پر مقرر کردیا ہے اگر تو ان قسموں میں سے کسی قسم پر ہے تو میں تجھے تیرا حق دے دوں گا ۔ ” للفقراء المسکین “ صدقہ کی اقسام میں سے پہلی قسم فقراء ہیں ۔ دوسری ، مساکین ، علماء کا فقیر اور مسکین کی تعریف میں اختلاف ہے۔ ابن عباس ؓ ، حسن مجاہد ، قتادہ ، عکرمہ اور زہری رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ فقیر جو سوال نہ کرے اور مسکین جو سوال کرے۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ فقیر وہ نہیں ہے جو ایک ایک درہم جمع کرے اور ایک ایک کھجور جمع کرے لیکن جو اپنے نفس اور کپڑے کو صاف کرے اور کسی شے پر قادر نہ ہو ۔ ان کو جاہل سوال نہ کرنے کی وجہ سے مال دار سمجھتے ہوں تو یہ فقیر ہے۔ فقیر و مسکین کی تعریف اور مختلف اقوال قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ فقیر اپاہج محتاج اور مسکین تندرست محتاج ۔ عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ فقراء مسلمانوں میں سے اور مساکین اہل کتاب میں سے مراد ہیں اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ فقیر وہ شخص جس کے پاس نہ مال ہو نہ ہنر ، خواہ اپاہج ہو یا تندرست اور مسکین وہ شخص جس کے پاس مال یا ہنر تو ہو لیکن اس کو غنی نہ کرتا ہو ۔ وہ خود سوال کرے یا نہ کرے تو امام شافعی (رح) کے نزدیک مسکین کی حالت فقیر سے بہتر ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ ’ اما لسفنیۃ فکانت للمساکین ‘ کہ ان کے لیے ملکیت کو ثابت کرنے کے باوجود ان کو مسکین کہا ہے کہ اصحاب رائے کے نزدیک فقیر کی حالت مسکین سے بہتر ہوتی ہے۔ ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں کہ فقراء سے مراد مہاجرین اور مساکین سے مراد جن مسلمانوں نے ہجرت نہ کی ہو ۔ خلاصہ کلام یہ کہ فقر و مسکنت حاجت اور ضعف مال کا نام ہیں ۔ پس فقیر وہ محتاج کہ ضروریات نے اس کی کمر توڑدی ہو اور مسکین وہ شخص کہ اس کی جان کمزورہو گئی ہو اور روزی کی تلاش میں حرکت سے عاجز آگیا ہو۔ عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ان کو خبر دی کہ وہ دونوں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ (علیہ السلام) سے صدقہ کا سوال کیا تو آپ (علیہ السلام) نے ان کی تصویب فرمائی اور فرمایا کہ اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دوں گا اور ان صدقات میں مالدار اور قوت الے کمانے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ غناء کی مقدار کتنی ہے جس کیلئے صدقہ لینا جائز نہیں علماء کا اس غناء کی حد میں اختلاف ہے جو صدقہ لینے سے مانع ہو۔ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کے اور اس کے عیال کو ایک سال کے لیے کافی ہو اور یہی امام مالک اور شافعی رحمہم اللہ کا قول ہے اور اصحاب رائے رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ دو سو درہم کا مالک ہو اوز ایک قوم نے کہا ہے کہ جو شخص پچاس درہم کا مالک ہو اس کے لیے صدقہ لینا حلال نہیں ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے جو ہم تک حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماایا کہ جس شخص نے لوگوں سے سوال کیا اور اس کے لیے اتنا مال ہے جو اس کو کافی ہے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں ایک زخم ہوگا تو صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا ۔ یا رسول اللہ ! کتنا مال بندو کو غنی کردیتا ہے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پچاس درہم یا اس کی قیمت سونا اور یہی سفیان ثوری (رح) ، ابن مبارک ، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا قول ہے اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ آدمی کو زکوٰۃ میں سے پچاس درہم سے زیادہ دیئے جائیں اور بعض نے کہا چالیس درہم کیونکہ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سوال کیا حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کے برابر مال ہے تو اس نے اصرار سے سوال کیا ۔ ” والعاملین علیھا “ یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات کی مال داروں سے وصولی میں کوشش کرتے ہیں اور اس کو مستحقین پر خرچ کرتے ہیں ۔ یہ خواہ مال دار ہو یا فقیر ان کے عمل کی اجرت کے برابر ان کو دیا جائے گا ۔ ضحاک اور مجاہد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ان کو صدقہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ۔ مؤلفۃ قلوب کا مصداق کون ہیں ؟ ” والمفولفۃ قلوبھم “ صدقہ کے مستحقین کی چوتھی قسم مؤلفہ قلوب ہیں ۔ ان کی دو قسمیں ہیں (1) مسلمان (2) کافر ، پھر مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں (1) ایک قسم وہ لوگ جو اسلام میں تو داخل ہوگئے تھے لیکن ان کی نیت کمزور تھی تو نبی کریم ﷺ ان کے دل کو جمانے کے لیے دیا کرتے تھے ، جیسا کہ عینیہ بن بدر اور اقرع بن حابس اور عباس بن مرد اس ؓ کو دیا ۔ وہ لوگ جو اسلام لائے اور ان کی نیت اسلام میں پختہ تھی اور یہ اپنی قوم کے معززین تھے جیسے عدی بن حاتم ، زبرقان بن بدر ؓ تو نبی کریم ﷺ ان کو دیتے تھے ان کی قوم کو مائل کرنے اور ان جیسے دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے تو ان لوگوں کو امام غنیمت کے خمس اور فئی میں سے دے سکتا ہے اور نبی کریم ﷺ ان کو دیتے تھے لیکن صدقات میں سے نہ دیتے تھے اور دوسری قسم وہ مسلمان بھی داخل تھے جن کے ہاں کافروں کے مقابلہ کیلئے کوئی مسلمان فوج اتری ہو مگر مسلمانوں کی مقامی امداد کے بغیر وہ لشکر اپنے نشانہ پر نہ پہنچ سکتا ہو اور مقامی مسلمان جہاد میں شرکت کیلئے تیار نہ ہوں ، خواجہ اپنی بدحالی کی وجہ سے با ایمان کی کمزوری کے سبب سے ، ایسی صورت میں حاکم کیلئے جائز ہے کہ مجاہدوں کے حصہ کے مال غنیمت میں سے اور بقول بعض مؤلفۃ القلوب کے زکوٰۃ کے حصہ میں سے ان مسلمانوں کو کچھ دے دے۔ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس صدقہ کے تین سو اونٹ وصول کر کے لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو اس میں سے تیس اونٹ دیئے اور کافروں میں سے ” مولفۃ قلوب “ وہ ہیں جن کے اسلام کی امید ہو یا اس کے شرکا خوف ہو تو اما م ان کے شر سے بچنے کیلئے یا ان کو اسلام کی طرف راغب کرنے کیلئے کچھ دے۔ نبی کریم ﷺ ان کو خمس کا خمس دیتے تھے۔ جیسا کہ آپ (علیہ السلام) نے صفوان بن امیہ کے اسلام کی طرف میلان کو دیکھ کر ان کو بھی دیا لیکن اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دی ہے ( اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں) اور اس سے بےپرواہ کردیا ہے کہ اسلام کی طرف لوگوں کو مائل کریں تو کسی مشرک کو کسی حال میں دینا جائز نہیں ہے۔ اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں ان کا حصہ اب ختم ہے۔ یہی بات اور شعبی (رح) سے مروی ہے اور اسی کے امام مالک اور ثوری رحمہم اللہ اور اصحاب رائے قائل ہیں اور ایک قوم نے کہا ہے کہ ان کا حصہ اب بھی ثابت ہے۔ یہی بات حسن (رح) سے مروی ہے اور یہی زہری اور ابو جعفر رحمہم اللہ محمد بن علی اور ابو ثور رحمہما اللہ کا قول ہے اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہو تو ان کو دیا جائے گا ۔ ” وفی الرقاب “ پانچویں قسم رقاب ہے اور یہ وہ مکاتب ہیں کہ ان کا صدقہ میں حصہ ہے۔ یہی اکثر فقہاء کا قول ہے اور سعید بن جبیر ؓ ، نخعی ، زہری ، لیث بن سعد اور شافعی رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس مال کے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں اور یہ حسن (رح) کا قول ہے اور امام مالک اور احمد اور اسحاق رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں ۔ ” والغارمین “ چھٹی قسم غارمین ہے ان کی دو قسمیں ۔ ایک قسم وہ لوگ جنہوں نے اپنی ضرورت کے لے قرض لیا ہو لیکن کسی گناہ کے کام کے لیے قرض نہ لیا ہو تو اگر ان کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ اپنا قرضہ اتار سکیں تو صدقہ میں سے ان کو دیا جائے گا ۔ لیکن اگر قرضہ ادا کرنے کا مال ہو تو ان کو نہ دیا جائے گا اور ایک قسم وہ لوگ جنہوں نے نیکی اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے قرض لیا ہو ان کو بھی صدقہ کے مال سے اتنا دیا جائے گا کہ وہ صدقہ ادا کرلیں ۔ اگرچہ یہ مالدار ہوں۔ غنی کیلئے صدقہ لینے کی اجازت کس طرح ہے۔ حضرت عطاء بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں سوائے پانچ آدمیوں کے ۔ اللہ کے راستے میں لڑنے والا 2۔ مقروض کے لیے 3۔ ایسے شخص کے لیے جو اس صدقہ کو اپنے مال سے خرید لے 4۔ یا ایسے آدمی کے لیے اس کے مسکین پڑوسی ہوں ان پر صدقہ کیا جائے تو کوئی مسکین اس غنی کو ہدیہ کر دے۔ 5۔ اس صدقہ کی وصولی کے لیے کام کرنے والے کے لیے لیکن جس نے کسی معصیت کے کام کے لیے قرضہ لیا ہو تو اس کو صدقات میں سے کچھ نہ دیا جائے گا ۔ ” وفی سبیل اللہ “ اس سے مرادمجاہدین ہیں ان کے لیے صدقہ میں حصہ ہے کہ جب وہ غزوہ کی طرف نکلنے کا ارادہ کریں گے تو ان کو صدقہ دیا جائے گا اور جہاد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ بھی دی جائیں گی جیسے سفر خرچ ، کپڑے ، ہتھیار ، سواری ۔ اگرچہ یہ مال دار ہوں اور حج کے لیے صدقہ نہ دیا جائے گا اکثر اہل علم کے نزدیک ۔ ایک قوم نے کہا ہے کہ فی سبیل اللہ کا حصہ حج کے لیے بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔ یہی بات ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہی حسن اور احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا قول ہے۔ ” وابن السبیل “ اور آٹھویں قسم ابناء السبیل کی ہے ۔ پس جو شخص مباح سفر کا ارادہ کرے اور اس کے لیے اس سفر کا کرایہ نہ ہو تو اس کو صدقہ میں سے اتنا حصہ دینا جائز ہے کہ وہ اپنا سفر کرسکے چاہے جس شہر کی طرف جا رہا ہے وہاں اس کا مال ہو یا نہ ہو اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ابن لسبیل مسافر ہے اور عراق کے فقہاء (رح) فرماتے ہیں کہ ابن السبیل سے وہ حاجی مراد ہے جو قافلہ سے پیچھے رہ گیا ہو ۔ ” فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم “۔ صدقات کی تقسیم کیسے کی جائے گی اہل علم اور فقہاء رحمہم اللہ کا صدقات کی تقسیم کی کیفیت سے اختلاف ہے اور اس بات میں اختلاف ہے کہ بعض اصناف کی طرف خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جب تمام اصناف موجود ہوں تو سارا مال بعض پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور یہی عکرمہ (رح) کا قول ہے اور امام شافعی (رح) بھی اسی کے قائل ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے مال میں سے ان چھ قسموں میں سے ہر ایک پر خرچ کرے جن کا حصہ ثابت ہے برابر خرچ کرے اور علماء رحمہم اللہ کی ایک جماعت کا قول ہے کہ اگر سارا صدقہ ان اقسام میں سے ایک قسم یا ان میں سے کسی قسم کا ایک شخص پر خرچ کر دے تو بھی جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آٹھ قسموں کا نام لے کر یہ بتادیا کہ ان کے علاوہ کسی مصرف میں نہیں خرچ کرسکتے۔ یہ واجب نہیں کیا کہ تمام قسموں میں برابر تقسیم کرنا ہے۔ یہی حضرت عمر اور ابن عباس ؓ کا قول ہے اور سعید بن جبیر اور عطاء (رح) اسی کے قائل ہیں اور اسی کی طرف سفیان ثوری اور اصحاب رائے گئے ہیں اور اسی کے امام احمد (رح) قائل ہیں اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ ایک قسم کو دینا بھی جائز ہے لیکن مال کو سب قسموں پر تقسیم کرنا اولیٰ ہے اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ وہ حاجت مندوں کو تلاش کرے اور جو زیادہ ضرورت مند ہو وہ اولیٰ ہے۔ اگر کسی سال فقراء زیادہ ضرورت مند ہوں تو ان کو مقدم کرے اور اگر دوسرے سال دوسری قسم میں سے کوئی زیادہ ضرورت مند ہو تو ان کو مقدم کرے۔ اور جس کو صدقہ دیا جائے اس کے استحقاق سے زیادہ نہ دیا جائے ۔ فقیرکو اس کے غنا کی مقدار پر زائد نہ دیا جائے ۔ جب اس کو تھوڑاغنا حاصل ہوجائے تو پھر اس کو نہ دیاجائے۔ اگر وہ ہنر مند ہے لیکن ہنر کے اوازار نہیں ہیں تو اس کو اتنی مقدار دی جائے جس سے ہنر کے اوزار خرید سکے اور عامل کو اس کے عمل کی اجر تے سے زیادہ نہ دیا جائے اور مکاتب کو بدل کتابت سے زیادہ نہ دیا جائے اور مقروض کو اس کے قہض سے زائد نہ دیا جائے اور مجاہد کو اس کے آنے جانے اور معرکہ جنگ میں قیام اور جن ہتھیاروں اور سواری کی ضرورت ہے اتنا نفقہ دیا جائے اور مسافر کو اس کی منزل مقصود اور اپنے مال تک پہنچنے جتنا خرچ دیا جائے۔ صدقات ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوسکتے ہیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف صدقہ کو منتقل کرنے میں اختلاف ہے جب اس شہر میں بھی مستحقین موجود ہوں تو اکثر اہل علم نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے جو ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاد ؓ کو یمن بھیجا اور فرمایا ، آپ اہل کتاب کی قوم کے پاس جا رہے ہیں ، ان کو اس بات کی گواہی کی طرف بلائیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء کو دیا جائے گا ، اگر وہ اس کو مان لیا تو آپ ان کے عمدہ مال کو لینے سے بچیں اور مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا کیونکہ اس کی ( بد دعا) اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے تو اس حدیث نے دلالت کی ہے کہ ہر قوم کے صدقات اسی قوم کے فقراء پر خرچ کیے جائیں گے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جب صدقات ایک شہر سے دوسرے شہرمنتقل کردیئے جائیں تو فرض ادا ہوجائے گا مگر عمر بن عبد العزیز (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے زمانہ میں صدقات خراسان سے شام منتقل کیے گئے تھے تو انہوں نے واپس خراسان منتقل کردیا تھا۔
Top