Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 64
لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ١ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُؕ
لَھُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰي : بشارت فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت لَا تَبْدِيْلَ : تبدیلی نہیں لِكَلِمٰتِ : باتوں میں اللّٰهِ : اللہ ذٰلِكَ : یہ ھُوَ : وہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ خدا کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
64۔ مسند امام احمد بن حنبل میں عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ﷺ سے پوچھا کہ اس آیت میں نیک مسلمانوں کو دنیا میں خوشخبری کا جو ذکر ہے اس سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں اور یہ ایک مسئلہ ہے کہ امت میں سے کسی شخص نے تم سے پہلے مجھ سے نہیں پوچھا 1 ؎ اس بات کے قرار دینے میں کہ خواب کیا چیز ہے لوگوں نے بڑا اختلاف ڈال رکھا ہے۔ طبیب لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ جس خلط کا غلبہ آدمی کی طبیعت پر ہونا ہے اسی طرح کی چیزیں اس کو سوتے میں نظر آتی ہیں۔ مثلاً بلغمی مزاج کا آدمی کے ذہن میں نقش پذیر ہوجاتی ہیں لیکن یہ دونوں فرقوں کی باتیں محض خیالی باتیں ہیں کیوں کہ اگر خواب کا وجود ایسا ہی خیالی ہوتا جیسا یہ لوگ کہتے ہیں تو خواب کے موافق دنیا میں تعبیر کیوں پیش آیا کرتی کیا خلط اور ذہن میں یہ بھی قدرت ہے کہ خیالی چیز کو دنیا میں پیدا بھی کر دے خواب کی اصل حقیقت وہی ہے جو وحی کے ذریعہ سے صاحب وحی ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ چناچہ صحیح بخاری ابن ماجہ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خواب کی تین قسمیں ہیں ایک تو وہ ہے کہ آئندہ کوئی بات خواب دیکھنے والے کے حق میں ہونے والی ہیں پھر جس طرح جاگتے ہیں الہام ہوتا ہے اسی طرح سوتے میں اللہ تعالیٰ اس بات کو اس شخص کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اسی قسم کو آنحضرت ﷺ نے نبوت کا جز فرمایا ہے دوسری قسم وہ ہے کہ جس کام میں سونے سے پہلے آدمی لگا ہوا تھا وہی خیال کے طور پر سوتے میں آدمی کو نظر آتا ہے تیسری قسم وہ ہے کہ شیطان ڈرانے کے طور پر خوفناک چیزیں یا خوفناک حالت خواب میں دکھاتا ہے 2 ؎ دوسری قسم تو محض خیال ہی خیال ہے اس لئے اس کا کوئی حکم حدیث شریف میں نہیں ہے تیسری قسم کی نسبت آپ نے فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ ایسے خواب کا کسی سے ذکر نہ کرے بلکہ جس کروٹ کے بل یہ خواب دیکھا ہے اس کروٹ کو بدل کر لا حول پڑھے اور بائیں طرف تھوکے اور سو جاوے پھر کوئی نقصان اس خواب سے نہ ہوگا۔ 3 ؎ پہلی قسم کی نسبت آپ نے فرمایا ہے کہ کسی عالم سے جو اپنا دوست ہو تعبیر پوچھے تاکہ جاہل جہل کے سبب سے اور دشمن حسد اور دشمنی کے سبب سے الٹی تعبیر کہہ کر پریشانی میں نہ ڈالے یہ جو مشہور ہے کہ پہلی تعبیر کوئی کہنے والا کہہ دیتا ہے خواہ وہ اچھی ہو یا بری وہی پیش آتی ہے یہ روایت ترمذی 4 ؎ ابوداؤد ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح 5 ؎ بھی کہا ہے لیکن امام بخاری ؓ نے اس روایت کے یہ معنے کئے ہیں کہ اگر پہلے کی تعبیر دینے والے نے خدا کے ارادہ کے موافق تعبیر دے دی ہے تو پہلی تعبیر پیش آوے گی 6 ؎ کیوں کہ خواب ایک ایسی چیز ہے کہ خدا نے اس کو اپنے بندہ کے دل میں ڈالا ہے اور اسی کے موافق وہ خواب کا معاملہ دنیا میں واقع ہونے والا ہے پھر کسی غلط تعبیر دینے سے وہ معاملہ پلٹ نہیں سکتا طلوع غروب زوال کے وقت یا رات کو یا عورت کے روبرو خواب بیان کرنے کی ممانعت کی حدیثیں تو صحیح نہیں ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ صبح کی نماز کے بعد خواب بیان کرے کس لئے کہ آنحضرت ﷺ صبح کی نماز کے بعد اکثر صحابہ کے خواب سن کر ان کی تعبیرات بیان فرمایا کرتے تھے 7 ؎ اور یہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ اب نبوت تو گئی مسلمانوں کے لئے خوشخبری کی چیز بھی ایک دنیا میں رہ گئی ہے 8 ؎ اور خواب کو آپ نے نبوت کا جز جو فرمایا ہے اس کی چند روایتیں ہیں کم سے کم چھبیسویں جز کی روایت ہے اور زیادہ سے زیادہ چھیترویں جز کی روایت ہے چالیسویں جز اور اس سے کم کی روایتیں تو صحیح ہیں چالیسویں جز سے زیادہ کی روایتیں ضعیف ہیں 9 ؎ اور چند روایتوں کا سبب یہ ہے کہ تاریخ نزول وحی سے آپ کی وفات تک 23 برس کا زمانہ ہے اور وحی کے نزول سے پہلے جب آپ تنہا غار حرا میں عبادت کے لئے بیٹھا کرتے تھے اور اس زمانہ میں اکثر آپ کو خواب ہوا کرتے تھے وہ زمانہ چھ مہینے کا ہے اس تیئس برس کے اندر تیرہویں برس جب خواب کا ذکر آیا تو آپ نے خواب کو نبوت کا چھبیسواں جز فرمایا کیوں کہ وہ آپ کا چھ مہینے کا خواب کا زمانہ تیرہ برس کا چھبیسواں جز ہے اسی طرح اور روایتوں کو خیال کرلینا چاہیے سوا اس کے اور باتیں جو علماء نے اس بات میں لکھی ہیں 10 ؎ وہ تکلف سے خالی نہیں ہیں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب زمانہ قریب ہوگا تو مسلمان آدمی کے خواب اکثر سچے ہوں گے۔ 11 ؎ اس حدیث کے بعضے لوگوں نے یہ معنے بیان کئے ہیں کہ قریب زمانہ سے بہار کا موسم مراد ہے کیوں کہ اس زمانہ میں رات و دن قریب برابر کے ہوتے ہیں اور موسم کے درست ہونے کے سبب سے لوگوں کے مزاج ان دنوں میں اعتدال پر ہوتے ہیں اس لئے اس موسم کا خواب اکثر سچا ہوتا ہے لیکن یہ معنے صحیح نہیں ہیں کیوں کہ موسم مسلمان و فاسق و کافر سب کے لئے درست ہوتا ہے۔ مسلمان کا خواب اس موسم میں سچا ہوگا اس کے پھر کیا معنے ہیں علاوہ اس کے صحیح حدیثوں میں یہ صراحت بھی آچکی ہے کہ جب زمانہ قریب ہوگا اور علم اٹھ جائیگا 12 ؎ اس سے بالیقین معلوم ہوگیا کہ قریب زمانہ سے قرب قیامت کا زمانہ مراد ہے نبوت کا زمانہ دور ہوجانے کے سبب سے لوگوں میں طرح طرح کی باتیں اس زمانہ میں پھیل جاویں گی اور نبوت کے ختم ہوجانے اور وحی کے بند ہوجانے کے سب سے اچھے لوگوں کو بشارت اور بدلوگوں کو تنبیہ کا ذریعہ اور کوئی نہ ہوگا اس لئے خواب کے ذریعہ سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں بشارت اور تنبیہ فرماوے گا۔ غرض وہ یہی آج کل کا زمانہ ہے جس کی خبر تیرہ سو برس پہلے مخبر صادق نے دی ہے اس لئے آج کل جس مسلمان کو کسی طرح کا بشارت کا خواب ہو تو اس کو خوش ہونا اور اس خواب کو سچا جان کر اس کی تعبیر کا منتظر رہنا چاہیے اور جس کو کسی طرح کی تنبیہ کا خواب ہو تو اس کو اس تنبیہ کی تعبیر دریافت کر کے آئندہ اس تنبیہ طلب کام کو چھوڑ دینا چاہیے حدیث میں اگرچہ نیک مردوں کے خواب کا اکثر ذکر ہے مگر نیک عورتوں کے خواب کا بھی وہی حکم ہے جو مردوں کے خواب کا حکم ہے۔ چناچہ صحیح حدیثوں میں عورتوں کے خو اب کا ذکر بھی آچکا ہے۔ 13 ؎ انبیاء کے خواب سب سچے ہوتے ہیں لیکن بعضے تاویل طلب ہوتے ہیں جیسے آپ نے خواب میں تلوار کے پھل کا ٹوٹ جانا اور گائے کا ذبح ہونا دیکھا اور مراد اس سے ستر آدمیوں مسلمانوں کا جنگ احد میں شہید ہونا تھا نیک مسلمانوں کے خواب سچے ہوتے ہیں لیکن اکثر تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں فاسق مسلمانوں کے خواب سچے اور خیال شیطانی دونوں طرح کے ہوتے ہیں کافروں کا خواب ہزار میں ایک سچا کبھی ہوتا ہے حدیث میں بعضی چیزوں کے خواب میں دیکھنے کی تعبیر کا ذکر آگیا ہے مثلاً دودھ سے مراد علم دین 14 ؎ اور فطرت اسلام سے تعبیر دینے والے کو چاہیے کہ جس قدر چیزوں کا ذکر حدیث میں آچکا ہے ان کو یاد رکھنے کا علم وحی کے مخالف تعبیر نہ دیوے۔ صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دن رات کے خواب میں کچھ فرق نہیں ہے 15 ؎ تابعیوں میں سے حسن بصری ؓ کے ہم عصر محمد بن سیرین ؓ کے قول کا تعبیر میں بڑا اعتبار ہے علماء ان کو اس فن میں امام گنتے ہیں اور روایت حدیث میں بھی محمد بن سیرین ثقہ ہیں۔ مسند امام احمد اور ابوداؤد کے حوالہ سے براء بن عازب ؓ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا نیک لوگوں کی قبض روح کے وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور مغفرت کی خوشخبری دیتے ہیں 16 ؎ قتادہ اور بعضے اور سلف نے اس خوشخبری کو دنیا کی خوشخبری قرار دے کر اسی حدیث کو آیت کی تفسیر ٹھہرایا ہے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسری میں اس اختلاف کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ اچھے خواب اور آخری وقت کی خوشخبری دونوں کو آیت کی تفسیر قرار دیا جاوے تو مناسب ہے۔ 17 ؎ { لا تبدیل لکلمات اللّٰہ } کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس خوشخبری کا وعدہ اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے وہ وعدہ بدلنے والا نہیں اور یہ وعدہ انسان کے حق میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 444 ج 2۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 39 10 ج 2 باب القید فے المنام و مشکوۃ ص 394 کتاب الرؤ یا۔ 3 ؎ مشکوۃ ایضاً ۔ 4 ؎ مشکوۃ ایضاً بحوالہ ترمذی، ابوداؤد۔ 5 ؎ مستدرک حاکم ص 391 ج 4 ان الروؤ تقع علی ماتعبر۔ 6 ؎ صحیح بخاری شرحچ فتح الباری ص 511 ج 6۔ 7 ؎ تفصیل کیلئے دیکھئے فتح الباری 514 ج 6 باب تعبیر الرؤیا بعد صلوۃ الصبح۔ 8 ؎ صحیح بخاری ص 1035 ج 2 باب مبشرات۔ 9 ؎ دیکھئے فتح الباری ص 476 ج 6 باب رؤیا الصالحین الخ۔ 10 ؎ تفصیل فتح الباری ص 477 ج 6 میں دیکھ لی جائے۔ 11 ؎ صحیح بخاری ص 1035 ج 2 باب القید فی المقام۔ 12 ؎ مشکوۃ کتاب الفتن فصل ادلی بروایت صحیح از ابی ہریرہ ؓ ۔ 13 ؎ صحیح بخاری ص 1041 ج 2 باب اذا رأی بقر تخر۔ 14 ؎ صحیح بخاری ص 1037 ج 2 باب اللبن۔ 15 ؎ صحیح بخاری ص 1036 ج 2 کتاب التعبیر۔ 16 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 444 ج 2۔ 17 ؎ تفسیر ابن جریر ص 138 ج 11۔
Top