Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
(خدا نے) فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے راستے نہ چلنا۔
89۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے خدا سے دعا کی کہ اے رب ہمارے تو نے فرعون کو دنیا میں مال و دولت و جاہ و عزت دے رکھی ہے کیا یہ سب کچھ اس واسطے ہے کہ یہ خود بھی گمراہ رہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے تو ان کے مال و دولت کو خاک میں ملا دے اور ان کے دلوں کو اور بھی سخت کر دے تاکہ جب تک یہ عذاب کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیویں اس وقت تک ان کے دل نرم نہ ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تمہارے اور تمہارے بھائی ہارون (علیہ السلام) دونوں کی دعا قبول کی گئی مگر تم جلدی نہ کرو خاطر جمع رکھو اور اپنے کام پر جمے رہو۔ عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تھی اور ہارون (علیہ السلام) نے آمین کہی تھی اس لئے خدا نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی اس سے معلوم ہوا کہ آمین کہنے والے کو بھی دعا کرنے والا ٹھہرایا جاسکتا ہے بعضے مفسروں کا قول ہے کہ اس دعا کے بعد فرعون چالیس دن تک دنیا میں رہا لیکن ابن جریج کہتے ہیں کہ چالیس برس تک رہا پھر دریائے قلزم میں ڈوب کر معہ اپنے لشکر کے ہلاک ہوا اس کا حال آگے کی آیت میں آتا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا کا یہ اثر ہوا کہ فرعون کا سارا مال و دولت کھانے کی چیزیں تک پتھر ہوگئیں تھیں چناچہ عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک تھیلی فرعون کے وقت کی تھی انہوں نے جب آیت کو سنا تو تھیلی منگا کر دیکھی تو اس میں سے کچھ انڈے اور چنے نکلے توڑ کر دیکھا گیا تو واقعی پتھر ہوگئے تھے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے دعا کے اثر میں جلدی کرنے سے منع فرمایا ہے آیت کے ٹکڑے { فاستقیما ولا تتبعآن سبیل الذین لا یعلمون } کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں کیوں کہ آیت اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ انتظام الٰہی میں ہر کام کا وقت دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے مقرر ہوچکا ہے اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وقت مقررہ کے آجانے سے تمہاری دعا قبول تو ہوگی لیکن اس کا ظہور اپنے وقت مقررہ پر ہوگا۔ انجان آدمی کی طرح وقت مقررہ سے پہلے اس ظہور کی جلدی کرو نہ ظہور میں دیر ہونے کے سبب سے نبوت کے فرض منصب و عظ نصیحت میں کچھ خلل جائز رکھو کیوں کہ دعا کے اثر میں جلدی کا کرنا انتظام الٰہی کے برخلاف اور مرضی الٰہی میں ایک طرح کی بیجا مداخلت ہے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے چناچہ وقت مقررہ پر اس وعدہ اور دعا کے اثر کا جو ظہور ہوا اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ 1 ؎ صحیح مسل ص 335 ج 2 باب حجاج آدم و موسیٰ ۔
Top