Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 8
وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنْ : اگر تَكْفُرُوْٓا : ناشکری کروگے اَنْتُمْ : تم وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ لَغَنِيٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : سب خوبیوں والا
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (صاف صاف) کہہ دیا کہ اگر تم اور جتنے اور لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ناشکری کرو تو خدا بھی بےنیاز (اور) قابل تعریف ہے۔
8۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتیں یاد دلادیں اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور فرمانبرداری کی نصیحت کریں اس حکم الٰہی کے موافق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو وعظ کے طور پر طرح طرح کی نصیحتیں جو کی ہیں ان آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے یہ ایک عادت الٰہی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس شکر گزاری کی جزا میں اور نعمت پر نعمت دیتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا آخر کو وبال میں گرفتار ہوجاتا ہے فرعون اور اس کا لشکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری سے وبال الٰہی میں سب گرفتار ہوگئے بنی اسرائیل نے جب تک اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر دانی کی حکومت بادشاہت نعمت پر نعمت پائی اسی عادت الٰہی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نصیحت میں جتلایا ہے اور اللہ نے قریش کی عبرت کے لئے اس نصیحت کو ان آیتوں میں ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم کی حضرت ابوذر ؓ کی روایت کی حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام دنیا کے جن و انس اگر اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور شکر گزاری اختیار کریں تو اس سے خدا کی خدائی میں کچھ بڑھ نہیں جاتا اور اگر یہ سب کے سب نافرمانی اور ناشکر ہوجاویں تو خدا کی خدائی میں سے کچھ گھٹ نہیں جاتا اور یہ سب کے سب مل کر اپنی حاجتیں پوری ہونے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ ان سب کی حاجت روائی کرے تو بھی اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں سے کچھ کم نہیں ہوتا غرض شکر گزاری کے عوض میں اللہ تعالیٰ جو نعمتیں اپنی شکر گزار مخلوق کو دنیا میں دیتا ہے اور عقبیٰ میں ایک نیکی کا دس سے لے کر سات سو تک اس نے اجر ٹھہرا رکھا ہے یہ محض اس کا فضل ہے ورنہ اس کو کسی کی شکر گزاری اور کسی کے نیک عمل کی کچھ پروا نہیں ہے۔ اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نصیحت میں بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ شکر گزاری اور فرمانبرداری کا بدلہ جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملتا ہے وہ اللہ کا فضل اور اس کی قدر دانی ہے ورنہ تمام روئے زمین کی مخلوق اگر ناشکر اور نافرمان بن جاوے تو خدا تعالیٰ کو اس کی کچھ پروا نہیں کیونکہ کسی کی ناشکری اور نافرمانی سے اس بادشاہ حقیقی کی بادشاہی میں کچھ فرق نہیں آتا وہ بادشاہی دنیا کے بادشاہوں کی بادشاہی جیسی نہیں ہے کہ رعیت کی سرکشی یا فوج کی بغاوت سے اس بادشاہی میں کچھ فتور پڑجاوے پہلی امتیں جو اللہ کی نافرمانی کے سبب سے غارت ہوگئیں اس نصیحت میں ان کا ذکر کر کے آگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ جس طرح شکر گزاری کی جزا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عادت الٰہی قرار دے رکھی ہے۔ اسی طرح یہ بھی عادت الٰہی ہے کہ ناشکر اور نافرمانبردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کے وبال میں گرفتار کردیتا ہے۔
Top