Fahm-ul-Quran - Ibrahim : 8
وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنْ : اگر تَكْفُرُوْٓا : ناشکری کروگے اَنْتُمْ : تم وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ لَغَنِيٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : سب خوبیوں والا
” اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں سب کے سب کفر کرو تو بیشک اللہ بےپروا اور بہت تعریف والا ہے۔ “ (8) ”
فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک بار پھر سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ کیونکہ توحید کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کیے بغیر ا 9 نسان کی پائیدار بنیادوں پر اصلاح نہیں ہوسکتی۔ توحید کا یہ تقاضا ہے کہ انسان مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے۔ شکرکا الٹ اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا اور سمجھایا کہ اگر تم اور جو بھی زمین پر انسان موجود ہیں اور ہوں گے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ بندوں کے شکریہ اور ان کی فرما نبرداری کا محتاج نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بےنیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے۔ کیا تمہیں پہلے لوگوں کے واقعات کا علم نہیں ؟ جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، ثمود اور ان کے بعد لوگوں کا آسمانی اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر موجود ہے۔ ان میں ایسی اقوام بھی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بشر کو نہیں کہ کونسی قوم کس علاقے اور کس انجام کے ساتھ دوچار ہوئی۔ ان کے پاس اللہ کے رسول بین دلائل کے ساتھ آئے۔ مگر ان قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کے اخلاص کی قدر کرنے، ان کی دعوت سمجھنے اور ان کی تائید کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں کیونکہ جس عقیدہ کی تم دعوت دیتے ہو
Top