Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 104
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۙ لَا یَهْدِیْهِمُ اللّٰهُ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے ہیں بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں پر لَا يَهْدِيْهِمُ : ہدایت نہیں دیتا انہیں اللّٰهُ : اللہ وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دردناک عذاب
یہ لوگ خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ان کو خدا ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔
104۔ 105۔ جو لوگ خدا کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے ذکر سے منہ پھیرتے ہیں اور اس کے کلام کی تصدیق نہیں کرتے وہ ہرگز ہدایت نہیں پاسکتے اور نہ زبردستی خدا انہیں راہ راست پر لائے گا کیونکہ ان کی بدبختی پہلے ہی خداوند عالم کے علم ازلی میں ظاہر ہوچکی ہے۔ اس لئے آخرت میں ان کے واسطے بہت ہی درد ناک عذاب مقرر کیا گیا ہے یہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن محمد نے آپ جی سے گھڑ کر بنایا ہے یا کسی بشر نے انہیں سکھلایا ہے یہ ان لوگوں کا جھوٹ ہے کہ ایسے شخص کو نہایت راست گو مشہور ہیں انہیں جھٹلاتے ہیں جس وقت ابو سفیان سے روم کے بادشاہ ہرقل نے آنحضرت ﷺ کے چال چلن اور صفات کو دریافت کیا اور پوچھا کہ کیا تم انہیں جھوٹ کی تہمت لگا سکتے ہو تو ابو سفیان نے جواب دیا نہیں کیونکہ کبھی ان کو جھوٹ بولتے نہیں سنا اس پر ہرقل نے کہا کہ پھر بھلا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ دنیا داری کے معاملہ میں جو شخص لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور اللہ پاک پر جھوٹ بولے اپنے کلام کو اس کا کلام بتا وے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت 1 ؎ جو ابو سفیان کے حوالہ سے ہے اس میں یہ ہرقل کا قصہ تفصیل سے ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ ازلی بدبختی کے سبب سے اللہ کے رسول ﷺ کو جھٹلاتے تھے ورنہ اللہ کے رسول ﷺ کا سچ ان لوگوں میں ایسا مشہور تھا کہ ان میں کوئی شخص اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگا سکتا تھا اسی واسطے فرمایا کہ اللہ کے رسول کی صداقت کی شہرت کے بعد پھر جو یہ لوگ ان کو جھٹلاتے ہیں تو یہی لوگ جھوٹے ہیں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جانے کے قابل اب دنیا میں ہر شخص کو وہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں جن کو علم الٰہی کے موافق وہ کرنے والا ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ مشرکین مکہ اللہ کے رسول کی صداقت کے قائل تھے مگر بد بختی ازلی کے سبب سے پھر بھی اللہ کے رسول کا جھٹلانا ان کو اچھا نظر آتا تھا اور دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا ہوئی ہے اس لئے ان لوگوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 4 ج 1 قبل کتاب الایمان۔ 2 ؎ جلد ہذا ص 202۔
Top