Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 104
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۙ لَا یَهْدِیْهِمُ اللّٰهُ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے ہیں بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں پر لَا يَهْدِيْهِمُ : ہدایت نہیں دیتا انہیں اللّٰهُ : اللہ وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دردناک عذاب
(بیشک جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لا لاَ یَھْدِیْھِمُ اللّٰہُ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ج وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 104۔ 105) (بیشک جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ وہی لوگ جھوٹ تراشا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔ ) ہدایت سے متعلق اللہ تعالیٰ کا قانون آنحضرت ﷺ کی دعوت دین کی غیرمعمولی مساعی کو دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال دل میں پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف آنحضرت ﷺ کی انتہائی دلآویز شخصیت دوسری طرف قرآن کریم جیسی اعجازی شان رکھنے والی کتاب اور تیسری طرف لوگوں سے آپ کی انتہا درجہ ہمدردی و غمگساری اور چوتھی طرف ان کے ایمان کے لیے آپ ﷺ کی غیرمعمولی مساعی کو دیکھتے ہوئے یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ کے مخاطب آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ ﷺ کی دعوت کا راستہ روکنے اور ہر ممکن طریقے سے آپ ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے پر اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سالوں تک یہ کشمکش جاری رہی تاآنکہ آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ قرآن کریم نے جگہ جگہ اس نکتہ کو کھولا، اس کا حاصل یہ ہے کہ ہدایت کے جتنے ممکن ذرائع ہیں ہم ان تمام ذرائع کو بروئے کار لا کر انسانوں کے لیے ہدایت قبول کرنا آسان بنا دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ بجائے قبول کرنے کے اس کا راستہ روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر ہم انھیں ہدایت نہ دینے کا فیصلہ کردیتے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جب ان کی محرومی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ پر مہریں لگا دیتے ہیں۔ اب ان کی زندگی کذب اور جھوٹ کی تصویر بن جاتی ہے۔ جب تک انھیں موقع رہتا ہے وہ حق و باطل کی اس کشمکش میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہتے رہتے ہیں۔ اس سے اگلی آیت میں اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بدبخت خود تو جھوٹ کا کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کی زبانوں پر آنحضرت ﷺ کے لیے الزامات واتہامات ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کا دعویٰ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب منزل من اللہ نہیں بلکہ نہ جانے اس میں کس کس کی قلمکاریاں شامل ہیں اور کتنے احکام ہیں جنھیں محض آنحضرت ﷺ نے خود گھڑا ہے۔ ایسی باتیں کرنا ان کا معمول بن گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر یقین کرتا ہے اور اسے اس بارے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہوا کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ایسے شخص سے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ زندگی کے کسی معاملے میں جھوٹ بولے۔ چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ تو حق کا ترجمان، حق کی برہان اور منارہ نور بن کر آتا ہے۔ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کے بارے میں جھوٹ کا تصور کیا جائے۔ جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں ان کی شان بھی یہ ہے جسے آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا۔ امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہ ِﷺ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جُبَاناً قَالَ نَعَمْ فَقِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیَلاً قَالَ نَعَمْ فَقِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا قَالَ لاَ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے ؟ فرمایا، ہاں۔ (ہوسکتا ہے) پھر پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہوتا ہے ؟ فرمایا، ہاں۔ پھر پوچھا گیا کیا مومن جھوٹا ہوتا ہے ؟ فرمایا نہیں۔
Top