Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
ہم ان کو اور ان کو سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش سے مدد دیتے ہیں، اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں
20۔ 21:۔ اوپر کی آیتوں میں اس بات کا بیان تھا کہ جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا مل جاتی ہے اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے آخرت ملتی ہے اب یہ فرمایا کہ ان دونوں گروہ میں سے کوئی بھی سب پر اللہ پاک اپنی بخشش کیے جاتا ہے جو شخص جس بات کا مستحق ہے وہ اسے عطا کرتا ہے اس کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں ہے کوئی چاہے کہ خداوند جل شانہ کی بخشش کو روک دے تو وہ کسی کے روکے نہیں رک سکتی کافر و مومن سب کا وہ رازق ہے پھر آنحضرت ﷺ کو خطاب فرمایا کہ دیکھو اللہ نے کس طرح دنیا میں لوگوں کو پیدا کیا ہے ایک پر ایک کو بزرگی دی ہے کسی کو تونگر کسی کو محتاج بنایا کوئی بادشاہ ہے تو کوئی فقیر کوئی بیمار ہے تو کوئی تندرست۔ کسی کو عقل مند پیدا کیا تو کسی کو نادان کوئی دیوانہ ہے تو کوئی ہوشیار غرض کہ اس میں بھی خدا کی وہ حکمت پوشیدہ ہے جس کے سیکھنے کی طاقت قوت بشر سے بالکل باہر ہے بڑے بڑے صاحب عقل اس بھید کے سمجھنے سے قاصر ہیں پھر یہ فرمایا کہ جس طرح دنیا میں تم دیکھتے ہو کہ اللہ پاک نے ایک کو ایک سے افضل بنایا ہے اور ایک پر ایک کو بزرگی دی ہے اسی طرح سمجھ لو کے آخرت کے درجے بھی الگ الگ ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابو سعید ؓ خدری سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جنت کے نیچے کے درجے کے لوگوں کو اوپر کے درجوں کے جنتی اس طرح نظر آویں گے جس طرح زمین پر سے تارے نظر آتے ہیں 1 ؎۔ ان ہی ابوسعید خدری ؓ سے مسند امام احمد اور مسند بزار میں صحیح روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا دوزخ کی آگ کسی کے ٹخنوں تک ہوگی اور کسی کے گھٹنوں تک اور کسی کے سر سے بھی اونچی 2 ؎۔ دنیا کے درجوں کی طرح آخرت کے درجوں کے الگ الگ ہونے کا ذکر جو آیتوں میں ہے اس کی تفسیر ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 378 ج 2 کتاب الجنۃ 2 ؎ الترغیب فصل فی تفاو تہم فی العذاب ص 342 ج 2۔
Top