Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 36
وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی عبادت کرو ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سیدھا
اور بیشک خدا ہی میرا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے
36:۔ شروع تقریر میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں رسول ہوں اسی سلسلہ میں اب یہ فرمایا کہ اے لوگو ! جب میں اور تم سب للہ کے بندے ہیں اور وہ ہم سب کا معبود اور رب ہے تو خالص اسی کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا ایک یہی سیدھا راستہ ہے مطلب یہ ہے کہ سوائے اس ایک راستہ کے اور سب راستے ٹیڑھے ہیں اس لیے کہ خالص اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر جو کوئی دوسرا راستہ چلا وہ دوزخ میں جانے کا شرکیہ راستہ ہے۔ مسند امام احمد نسائی مستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے 1 ؎ اور ترمذی وغیرہ میں عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ سے معتبر روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک روز بہت سی لکیریں زمین پر کھینچ کر یہ فرمایا کہ ان میں سوائے ایک راستہ کے اور سب راستے دوزخ کے ہیں اور وہ ایک راستہ دوزخ سے بچا ہوا وہی ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں 2 ؎۔ ان روایتوں سے اور انجیل یوحنا کے باب سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس نصیحت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو کوئی خالص اللہ کی عبادت کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ چلا وہ دوزخ میں جانے کا شرک کا راستہ ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 3 باب الاعتصام بالکتاب والسنہ فصل دوسری ) (2 ؎ ایضا )
Top