Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اس نے آدم کو (سب چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ
(31 ۔ 33): آیت { فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفْخُت فِیْہِ مِنْ رُّوْحِی فَقَعُوْالہ سَاجِدِیْنَ } (15۔ 29) سے اور شفاعت کی انس بن مالک کی بخاری و مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے جس میں یہ ذکر ہے کہ میدان محشر میں لوگ حضرت آدم کے پاس سب انبیاء سے پہلے جا کر یہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عزت دی ہے کہ فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا ہے اور آسمان و زمین کی سب چیزوں کے نام آپ کو سکھائے ہیں اس عزت کے سبب سے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت منظور فرما وے گا 1۔ اور اسی طرح کی آیات و احادیث کے سبب سے اس پر تو سب مفسرین سلف کا اتفاق ہے کہ حضرت آدم کے اصل قصہ میں ملائکہ کے سجدہ کے بعد حضرت آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے گئے ہیں مگر تلاوت قرآن میں یہ دونوں آیتیں آگے پیچھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں کہ انی اعلم ما لا تعلمون اور وعلم ادم الاسماء کلہا یہ دونوں آیتیں مل کر علم الٰہی کی آیتیں ایک سلسلہ میں ہوجاویں اسی شفاعت کی حدیث میں ہے وعلمک اسمآء وکل شیء جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کے نام سکھائے تھے۔ صحابہ ؓ کی ایک جماعت نے کہا کہ ما تبدون سے مراد فرشتوں کا وہی قول ہے کو بنی آدم کے پیدا کرنے سے خون ریزی ہوگی اور طرح طرح کا فساد زمین میں پھیلے گا اور تکتمون سے ابلیس کا وہ تکبر مقصود ہے جو اس نے اپنے دل میں چھپا رکھا تھا۔
Top