Urwatul-Wusqaa - Hud : 170
فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ١ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ
فَرِحِيْنَ : خوش بِمَآ : سے۔ جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِھٖ : اپنے فضل سے وَيَسْتَبْشِرُوْنَ : اور خوش وقت ہیں بِالَّذِيْنَ : ان کی طرف سے جو لَمْ يَلْحَقُوْا : نہیں ملے بِھِمْ : ان سے مِّنْ : سے خَلْفِھِمْ : ان کے پیچھے اَلَّا : یہ کہ نہیں خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْھِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اللہ نے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے خوشحال ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے (دُنیا میں) رہ گئے ہیں اور ابھی ان سے ملے نہیں ان کیلئے خوش ہو رہے ہیں کہ نہ تو ان کیلئے کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی ہو گی
شہداء کو اللہ تعالیٰ نے جو انعامات دیئے ہیں وہ ان کو حاصل کر کے بہت خوش ہیں : 312: حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تمہارے بھائی احد والے احد والے روذ شہید کئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی درختوں کے پھل کھاتی ہیں اور جنتی نہروں سے پانی پیتی ہیں اور عرش کے سائے تلے وہاں لٹکتی ہوئی قنذیلوں میں آرام و راحت حاصل کر رہی ہیں۔ جب کھانے پینے ، رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کہ کاش کہ ہمارے بھائیوں کو جو دنیا میں ہیں ہماری ان نعمتوں کی خبر مل جاتی تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور راہ خدا کی لڑائیوں سے تھک کر نہ بیٹھ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا ہے بےفکر رہو میں یہ خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں اس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس آیت میں فرمایا کہ ” جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ہیں یعنی دنیا میں اور ابھی ان سے ملے نہیں ان کے لئے خوش ہو رہے ہیں۔ “ یہ امر ملحوظ رہے کہ قرآن کریم میں یہ حقیقت مختلف اسلوبوں سے واضح کی گئی ہے کہ عالی مقام اہل ایمان کے ساتھ جنت میں ان کی ذریت اور ان کے اسلاف میں سے ان لوگوں کو بھی جمع کردیا جائے گا جن کا خاتمہ ایمان پر ہوگا اگرچہ یہ لوگ اپنے عمل کے لحاظ سے ان کے درجے کے نہ ہوں گے۔ گویا یہ شہداء اور صدیقین پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوگا کہ ان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کی با ایمان ذریت کو ان کے ساتھ جمع کردیا جائے گا اور ان کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ قرآن کریم میں بہت جگہ پر اس کو بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ 1ۚ وَ اِنَّا لَهٗ کٰتِبُوْنَ 0094 وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ 0095 (الانبیاء 21 : 94 : 95) ” پس جس کسی نے نیک کام کئے اور وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کی کوشش اکارت جانے والی نہیں ہم اس کی نیکیاں لکھ لینے والے ہیں اور دیکھو جس آبادی کے لیے ہم نے ہلاکت ٹھہرا دی تو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کبھی لوٹنے والے ہوں۔ “ ایک جگہ ارشاد ہے : ” جس کسی نے اچھا کام کیا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو یاد رکھو ہم ضرور اسے اچھی زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں بھی ضرور اسے اجر دیں گے۔ انہوں نے جیسے جیسے اچھے کام کئے ہیں اس کے مطابق ہمارا اجر بھی ہوگا۔ “ (النحل 16 : 97) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہاں ! جو کوئی باز آیا ، ایمان لایا اور نیک عمل میں لگ گیا تو بلاشبہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی کھٹکا نہیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے حقوق میں ذار بھی ناانصافی نہ ہوگی۔ ہمیشگی کی جنت ، جس کا اپنے بندوں سے خدائے رحمٰن کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ ایک غیبی بات کا ہے۔ یقیناً اس کا وعدہ ایسا ہے جیسے ایک بات وقوع میں آگئی۔ اس زندگی میں کوئی ناشائتہ بات ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔ جو کچھ وہ سنیں گے سلامتی ہی سلامتی کی صدا ہوگی وہاں صبح و شام ان کا رزق ان کے لئے برابر مہیا رہے گا۔ سو دیکھو یہ جنت ہے جس کا ہم اسے وارث کردیتے ہیں جو ہمارے بندوں میں متقی ہوتا ہے۔ “ (مریم 19 : 60۔ 63) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشگی کے باغ ہیں اور باغوں کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ سونے کے کنگن پہنے ہوئے سبز ریشم کے باریک اور دبیز کپڑوں میں آراستہ مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے ! تو کیا ہی اچھا ان کا ثواب ہوا اور کیا ہی اچھی انہیں نے جگہ پائی۔ “ (الکہف 18 : 31) مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 155 تا 157 ملاحظہ کریں۔
Top