Tadabbur-e-Quran - Hud : 26
اَنْ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ
اَنْ : کہ لَّا تَعْبُدُوْٓا : نہ پرستش کرو تم اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ اَلِيْمٍ : دکھ دینے والا دن
کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں
حضرت نوح کی دعوت : اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ اَلِيْمٍ۔ یہ حضرت نوح ؑ کی دعوت کا نقطہ آغاز ہے۔ پیچھے مڑ کر اس سورة کی آیت 3 پر نظر ڈالی تو معلوم ہوگا کہ بعینہ اسی نقطہ سے نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی دعوت کا آغاز فرمایا پھر مزید آگے بڑھیے تو معلوم ہوگا کہ جس قسم کا معاوضہ قوم نوح نے حضرت نوح ؑ کے ساتھ کیا اسی قسم کا معارضہ نبی ﷺ کی قوم نے آپ کے ساتھ کیا۔ حالات واقعات کی یہ مطابقت ہی ہے جس کو دکھانے کے لیے یہ سرگزشتیں سنائی جا رہی ہیں کہ نبی اور اس کی قوم دونوں کے سامنے ماضی کے آئینے میں ان حاضر اور مستقبل کا پورا نقشہ آجائے۔ تاریخ کی جو قدروقیمت ہے وہ اسی پہلو سے ہے۔ اگر یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوجائے تو تاریخ کی حیثیت مجرد داستان سرائی کی رہ جاتی ہے۔
Top