Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
95:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ نافرمانی کے سبب سے جس بستی والوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا ایسے لوگوں پر قیامت سے پہلے دنیا میں پھر آنا انتظام الٰہی میں حرام ٹھہر چکا ہے ‘ حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول کے موافق مَامَنَعَکَ اَنْ لاَّ تَسْجُدَ میں جس طرح حرف ما کے بعد تاکید کے لیے حرف لا بڑھایا گیا ہے۔ اسی طرح لَاَ یَرْجعُوْنَ میں لاَ حرف فقط حَرَامٌ کی تاکید کے لیے بڑھایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُئوْمِنُوْنَ میں آوے گا کہ ایسے نافرمان لوگ جب مرجاتے ہیں اور منکر نکیر کے جواب کے لیے ان کے جسم میں روح پھر اللہ کے حکم سے آجاتی ہے تو ایسے لوگوں کا دوزخ کا ٹھکانا ان کو دکھا کر اللہ کے فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اسی ٹھکانے میں رہنے کے لیے تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ‘ اس وقت ایسے لوگ دنیا میں دوبارہ آنے اور نیک کام کرنے کی تمنا ظاہر کرتے ہیں اور ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ انتظام الٰہی کے موافق قیامت تک اب دنیا میں دوبارہ جانا ممکن نہیں ہے ‘ ہاں ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے روکنے کے لیے جو دیوار بنائی ہے ‘ قیامت کے قریب جب وہ دیوار ڈھے جائے گی اور یاجوج ماجج زمین پر پھیل جاویں گے اور پھر مرجاویں گے اور اس کے بعد وقت مقررہ پر پہلا صور پھونکا جا کر تمام دنیا ویران ہوجائے گی تو اس کے چالیس برس کے بعد ان دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا کرنے والوں کو قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے دوبارہ زندہ کیا جا کر دنیا کے میدان محشر میں سب کے ساتھ جمع کیا جائے گا ‘ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول جو بیان کیا گیا اس کا مضمون قَدْاَ فْلَحَ اْلُمْئومِنُوْنَ کی آیت کے مضمون کے موافق ہے اس واسطے آیت کی وہی تفسیر صحیح ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے حوالہ سے اوپر بیان کی گئی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث 1 ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے کہ جو کچھ لکھا جانا تھا وہ لکھا جا کر قلم خشک ہوگیا ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قلم کو دوبارہ سیاہی میں ڈبویا جا کر نہ تر کیا جائے گا نہ کچھ لکھا جائے گا۔ شاہ صاحب نے حرام کا ترجمہ مقرر ہو رہا ہے جو کیا ہے یہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق ہے ‘ اوپر کی حدیثوں کے موافق اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حرام شریعت کے حکم سے نہیں مقرر ہوا بلکہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے انتظام الٰہی میں یہ امر مقرر ہوا ہے اور لکھا جا کر قلم بھی خشک ہوگیا ہے کہ ایسے لوگوں پر قیامت سے پہلے دنیا میں پھر آنا انتظام الٰہی کے موافق منع اور حرام ہے ‘ تفسیر کے حساب سے قرآن شریف کی مشکل آیتوں میں سے یہ آیت بھی مشہور ہے ‘ انتظامی حرام کی شریعت میں اور بھی مثالیں ہیں مثلا جیسے سورة القصص میں آوے گا کہ سوائے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دودھ کے غیر عورتوں کا دودھ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر حرام ٹھہرا دیا تھا یا مثلا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر ) (2 ؎ ایضا )
Top