Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
بیان قرب قیامت و خروج یا جوج ماجوج وفناء عالم و بیان ذلت و خواری اہل غفلت وبیان عزت و کرامت اہل سعادت قال اللہ تعالیٰ وحرم علی قریۃ اہلکنھا انھم لا یرجعون .... الیٰ .... انا کنا فعلین۔ (ربط) گزشتہ آیات میں توحید اور رسالت کا بیان تھا اب آگے معاد اور قرب قیامت کو بیان کرتے ہیں کہ اس دنیا کا ایک وقت معین ہے اس کے بعد فنا کردی جائیگی اور اس فنا کی ابتدائی علامت خروج یاجوج و ماجوج ہے اس کے بعد وہ وعدہ بہت قریب آلگے گا۔ منجملہ علامات قیامت حضرت عیسیٰ علیہا لسلام کا آمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے۔ دجال کے قتل ہوجانے کے بعد یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا جن کی تعداد کی کوئی حد نہیں۔ فی الحال یہ لوگ اس وقت اس آہنی دیوار کے پیچھے محصور ہیں جس کو ذوالقرنین نے بنایا تھا کہ مخلوق خدا ان کے فتنہ سے محفوظ رہے۔ قیامت کے قریب وہ دیوار اور درہ کھل جائیگا اور یہ مفسد قوم وہاں سے ٹڈی دل کی طرح نکل پڑے گی۔ اور ہر طرف پھیل جائے گی۔ کما قال اللہ تعالیٰ حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون واقترب الوعد الحق۔ اور اس وقت قیامت کا سچا وعدہ قریب آپہنچے گا۔ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اہل ایمان کو ہمراہ لیکر کوہ طور پر پناہ لیں گے۔ باقی لوگ اپنے طور پر کسی قلعہ یا مکان میں محفوظ ہوجائیں گے بعد ازاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جناب باری میں یاجوج ماجوج کی ہلاکت کی دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کی گردنوں میں ایک طاعونی گلٹی پیدا کر دے گا جس سے سب کے سب ایک دم مرجائیں گے۔ حق جل شانہ نے ان آیات میں اس خوف و دہشت کو بیان کیا ہے جو قیامت کے قریب پیش آئے گی۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جن بستی والوں کو ہم نے عذاب یا موت کے ذریعے ہلاک کردیا تو اس بستی والوں کے لیے یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ وہ دوبارہ زندہ ہو کر ہماری طرف نہ لوٹیں۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ مرنے والے ہماری طرف نہ لوٹیں اور ہمارے حضور میں حساب و کتاب کے لیے حاضر نہ ہوں کفار کا یہ خیال کہ مرمرا کر خاک میں مل جائیں گے اور نیست و نابود ہوجائیں گے سو ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ایک روز ضرور ہماری طرف واپس لائے جائیں گے۔ اور قیامت قائم ہوگی اور ان کا حساب و کتاب ہوگا پس یہ جملہ درحقیقت گزشتہ جملہ کل الینا راجعون فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ وانا لہ کاتبون کے مضمون کی تاکید ہے جس سے منکرین حشر اور منکرین قیامت اور منکرین رجوع الی اللہ کا رد مقصود ہے۔ آیت ہذا کی تفسیر میں دوسرا قول اور بعض علماء تفسیر یہ کہتے ہیں کہ لا یرجعون میں لا زائدہ ہے اور رجوع سے رجوع بجانب دنیا مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ہلاک ہوچکے اور مرچکے انکا تدارک مافات اور اپنے اعمال کی درستی کے لیے دنیا میں دوبارہ واپس آنا ناممکن اور محال ہے ایک مرتبہ جب دنیا سے رخصت ہوگئے تو اس دار العمل سے چلے جانے کے بعد دوبارہ اس دار العمل کی طرف رجوع ممکن نہیں کہ دوبارہ واپس آکر پھر ایمان لاسکیں اور عمل صالح کرسکیں اور اس طرح اپنی برائیوں کا کفارہ کرسکیں تو یہ بات محال اور ناممکن ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فلا یستطیعون توصیۃ ولا الی اہلہم یرجعون اس قول کی بناء پر لایرجعون میں حرف لازائد ہے اور پہلے جیسا کہ سورة بقرہ میں الم تر الیٰ الذین خرجوا من دیارھم وہم الوف حذر الموت فقال لہم اللہ موتوا ثم احیاھم۔ کی تفسیر میں بنی اسرائیل کے دوبارہ زندہ ہونے کا قصہ گزرا اور پارہ سوم کے شروع میں حضرت ارمیاہ یا حضرت عزیز کا سو سال کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا قصہ گزر چکا ہے۔ بہرحال کسی مردہ کی قدرت اور اختیار میں یہ نہیں کہ وہ مر کر دوبارہ دنیا میں واپس آسکے لیکن حق تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں کہ وہ کسی حکمت اور مصلحت کی بنا پر کسی مردہ کو دوبارہ زندھہ کرسکے جس خدا نے اس کو پہلی مرتبہ دنیا میں زندگی عطا کی وہ اگر چاہے تو اس مردہ کو پھر دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ تیسرا قول اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جس کو ہم نے کفر اور گمراہی میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا اور کفر کی مہر اس کے دل پر لگا دی اس کا اپنے کفر سے لوٹنا محال اور ناممکن ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہلاکت اور فناء کے بعد دونوں باتیں ناممکن اور محال ہیں مرنے کے بعد دنیا کی طرف لوٹنا بھی ممکن نہیں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ لوٹ کر ہمارے پاس نہ آئیں اب آگے اس کی انتہا بتاتے ہیں کہ رجوع الی الدنیا یا عدم رجوع بسوئے خالق ان پر کب تک حرام اور ممنوع رہے گا یعنی جب تک اس کا وقت نہ آجائے اور وہ وقت قیامت اور اس کی علامتوں کا ظہور ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ ہالکین (ہلاک ہونے والے) برابر اپنی ہلاکت اور بربادی اور فنا پر مستمر رہیں گے اور اسی کفر و شرک کی حالت پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ جب علامت قیامت کا ظہور شروع ہوجائے اور یاجوج وماجوج کی بندش کھل جائے جو قیامت کی شروع نشانیوں میں سے ہے اور پھر وہ یاجوج وماجوج اپنی کثرت کی وجہ سے ٹڈی دل کی طرح ہر بلندی سے دوڑتے چلے آویں اور ہر طرف واپس آئیں گے اور ہماری طرف رجوع (واپسی) کا وقت یاجوج وماجوج کے خروج کے بعد شروع ہوگا جو قیامت کی نشانی ہے مطلب یہ ہے کہ ہلاکت اور فناء کے بعد جب قیامت قائم ہوگی تب یہ لوگ ہماری طرف رجوع کریں گے اور دنیا کی طرف لوٹنے کا امکان بالکلیہ ختم ہوجائے گا اور علامات قیامت کے مشاہدہ کے بعد کفر اور شرک سے رجوع (لوٹنا) یعنی اس سے توبہ کرنا بھی ممکن نہ رہے گا۔ اور خروج یاجوج و ماجوج کے بعد قیامت اور رجوع اور بعث کا سچا وعدہ قریب آجائے گا یعنی خروج یاجوج و ماجوج کے بعد قیامت قریب آجائیگی۔ اس کے بعد قیامت کے قائم ہونے میں کچھ دیر نہ ہوگی چناچہ حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص خروج یاجوج وماجوج کے بعد کوئی بچھیرا پالے گا تو اس پر سوار نہ ہوسکے گا کہ قیامت آجائے گی۔ پس ناگاہ اس وقت قصہ یہ ہوگا کہ خوف اور دہشت کی وجہ سے کافروں کی نگاہیں کھلی کی کھلی اور پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور حسرت سے یہ کہیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی اور بربادی کہ ہم دنیا میں اس قیامت سے اور خدا کی طرف رجوع سے اور حساب و کتاب کے لیے حضوری سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم غافل اور بیخبر نہ تھے اس لیے کہ انبیاء اور ان کے وارثوں نے ہم کو بار بار قیامت سے ڈرا دیا تھا اور خوب غفلت سے ہم کو جگا دیا تھا اور اول روزے ہی ہم کو اس ہولناک واقعہ سے واقف کردیا تھا۔ لہٰذا ہمارا قیامت کو جھٹلانا غفلت اور بیخبر ی کی بناء پر نہ تھا بلکہ عناد اور تکبر کی بنا پر تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم بلاشبہ ظالم تھے جان بوجھ کر ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا انبیاء (علیہ السلام) نے تو ہم کو بیدار اور ہوشیار کردیا تھا ہم نے خود ہی دیدہ و دانستہ حق کی تکذیب کی غرض یہ کہ جو لوگ اللہ کی طرف رجوع کے قائل نہ تھے وہ قیامت کو دیکھ کر رجوع اور بعث کے قائل ہوجائیں گے مگر اس وقت کا قائل ہونا اور مجبور ہو کر اپنے ظلم اور جرم کا اقرار کرنا ان کو سود مند نہ ہوگا اس لیے کہ اب فیصلہ کا وقت سر پر آپہنچا یہ کام تو دنیا میں کرنے کا تھا اور وہ اب ختم ہوچکی اور وہ فیصلہ یہ ہوگا کہ مشرکین مع اپنے معبودوں کے جہنم کا ایندھن بنا دئیے جائیں گے اور اہل ایمان مورد اور اعزازو اکرام اور محل احسان و انعام ہوں گے، چناچہ فرماتے ہیں کہ اے مشرکو ! عقیق تمہارا فیصلہ اب یہ ہے کہ تم اور تمہارے معبود جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن ہیں تم دونوں فریق عابد اور معبود جہنم کے لئے حاضر ہونے والے اور اس میں داخل ہونے والے ہیں اگر یہ بت اور یہ مورتیں واقعی میں خدا ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور یہ ذلت اور خواری ان کو لاحق نہ ہوتی کہ جہنم کا ایندھن بنتے بت تو بہرحال پتھر ہیں وہ تو ایندھن بنانے کے لائق ہیں لیکن جو پتھروں کو پوجتا ہو وہ پتھر سے بھی زیادہ پتھر ہے وہ اسی قابل ہے کہ پتھر کے ساتھ اس کو بھی دوزخ کا ایندھن بنا دیا جائے۔ جاننا چاہئے کہ بتوں کا جہنم میں جانا اس لیے نہیں کہ ان کو عذاب دیا جائے بلکہ اس لیے ہوگا کہ مشرکین پر حجت قائم ہوجائے کہ یہ بت لائق معبودیت نہیں ورنہ آگ میں کیوں جھونکے جاتے۔ اور اس قدر عاجز ہیں کہ آگ میں سے نکل بھی نہیں سکتے۔ اور ہر واحد یعنی عابد اور معبود دونوں ہی جہنم میں ہمیشہ رہیں گے کبھی اس سے نکلنا نہ ہوگا اور ان مشرکین کے لیے جہنم میں چیخنا اور چلانا اور لمبا سانس ہوگا جس سے دم نکلنے لگتا ہے اور وہاں شور و غل کی وجہ سے کچھ نہیں سن سکیں گے۔ یا اس وجہ سے کہ وہاں جا کر بہرے ہوجائیں گے جیسے دنیا میں حق کے سننے سے بہرے تھے۔ یہ تو اہل شقاوت کا حال ہوا۔ اب آگے اہل سعادت کا ذکر کرتے ہیں۔ تحقیق جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی یعنی سعادت ازلی سابق اور مقدر ہوچکی ہے اور جنت کا حکم ان کے لئے صادر ہوچکا ہے وہ جہنم سے اس قدر دور رکھے جائیں گے کہ جہنم کی آہٹ اور آواز کو بھی نہیں سنیں گے یعنی جہنم میں کافروں کے اجسام جلائے جائیں گے ان کے جلنے اور جلانے کی آواز بھی ان کے کان میں نہیں آوے گی کیونکہ وہ آواز مکروہ ہوگی اور جس عیش کو ان کا جی چاہے گا اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ تو اہل سعادت کی نعمت اور راحت اور لذت کا بیان ہوا۔ اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی پریشانی اور گھبراہٹ سے مامون اور محفوظ ہوں گے ان کو قیامت کے دن بڑی گھبراہٹ بھی غم میں نہیں ڈالے گی اور جب ان سعداء کو فزع اکبر (سخت گھراہٹ) سے غم اور پریشانی نہ ہوگی تو اور چیزوں سے بدرجہ اولیٰ پریشانی نہ ہوگی۔ جس دن تمام عالم حیرانی اور پریشانی میں مبتلا ہوگا اس دن یہ اہل سعادت فزع اکبر سے محفوظ ہوں گے۔ اور قبروں سے نکلتے اور اٹھتے وقت فرشتے ان کا استقابل کریں گے اور ان کو بشارت اور مبارک باد دیں گے اور کہیں گے یہ تمہارا وہ دن ہے۔ جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا کہ تم کو دار آخرت میں یہ نعمتیں اور کرامتیں ملیں گی سو یہ دن وہی ہے جس میں تمہارے پروردگار نے تم سے بقاء کا وعدہ کیا تھا یہ روز وصال ہے جس کے بعد فراق نہیں یہ کشف نقاب کا دن ہے جس کے بعد نہ کوئی حجاب ہے اور نہ کوئی عتاب ہے۔ نیک مرواں را نعیم اندر نعیم عشقبا زاں رالقاء اندر لقاء حصہ آنہا وصال حور عین بہرہ ا ینہا جمال کبریاء اب اس کے بعد قیامت کے دن آسمانوں کے فنا ہونے کا ذکر فرماتے ہیں یاد کرو اس دن کو کہ جب ہم نفخہ اولیٰ یعنی پہلی بار صور پھونکنے کے وقت آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے طومار میں مختلف کاغذ لپیٹ دیتے ہیں ” طومار “ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دفتر اور لمبے کاغذ کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح دستاویز کا لمبا کاغذ لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اسی طرح ہم آسمانوں کو لپیٹ کر رکھ دیں گے اس سے تم ہماری قدرت اور عظمت کا اندازہ لگا لو جس طرح ہم نے اول بار مخلوق کو بلا کسی اصل اور مادہ کے پیدا کیا اسی طرح ہم دوبارہ پیدا کردیں گے ہم نے دوبارہ پیدا کرنے کے وعدہ اپنے ذمہ لیا ہوا ہے ہم اپنے وعدہ کو ضرور پورا کرنے والے ہیں یا یہ معنی ہیں کہ اللہ نے اپنے نیک بندوں سے جو ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ وہ بہت پختہ وعدہ ہے اور اس وعدہ کی پہلی علامت نبی آخر الزمان ﷺ کا ظہور اور اس کی بعثت ہے سو وہ ظاہر ہوچکی جیسا کہ اقترب للناس حسابھم۔ میں اس کا ذکر ہوا اس لیے اب آئندہ آیات میں نبی آخر الزمان ﷺ کی امت کے ظہور اور غلبہ کی بشارت دیتے ہیں یعنی آئندہ آیت ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحوں میں اسی کا ذکر ہے۔ لطائف و معارف (1) آیت مذکورہ وحرم علی قریۃ اھلکنھا انھم لا یرجعون۔ کی تفسیر میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ پہلا قول : یہ ہے کہ جس بستی کو ہم نے تباہ و برباد کردیا موت کے ذریعہ اس کو ہلاک کردیا تو یہ ناممکن ہے کہ وہ حساب و کتاب کے لیے محشر کی طرف رجوع نہ کریں اس آیت سے منکرین حشر کا رد کرنا مقصود ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حشر و نشر کوئی چیز نہیں۔ مرنے کے بعد آدمی زمین میں مل کر خاک ہوجاتا ہے اور نیست و نابود ہوجاتا ہے اس قول کی بناء پر حرف لا آیت میں اصلی ہے زائد نہیں اور رجوع سے محشر کی طرف رجوع کرنا مراد ہے۔ دوسرا قول : یہ ہے کہ جس بستی کو ہم نے کفر و شرک سے ہلاک کردیا اور ان کی گمراہی کا قطعی حکم کردیا ان کا کفر سے اسلام کی طرف لوٹنا ممکن اور محال ہے۔ تیسرا قول : یہ ہے کہ رجوع سے رجوع الی الدنیا مراد ہے اور حرف ” لا “۔ آیت میں زائد ہے اور مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد دنیا میں دوبارہ ان کا لوٹ کر آنا ناممکن ہے۔ مرزائے قادیان کا ایک استدلال : مرزا نے قادیان اور اس کے متبعین اپنی مطلب براری اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے سرسری طور پر اس تیسرے قول کو ذکر کرتے ہیں۔ مرزائے قادیان نے اول تو یہ دعویٰ کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مرچکے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع اور نزول کے بارے میں جو آیات اور احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں ان میں طرح طرح سے تحریف کی۔ اور اس میں بڑا زور لگایا لیکن مرزا صاحب بڑے ہوشیار اور عیار تھے۔ اب ان کو یہ خوف لاحق ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ احتمال رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ زندہ کرکے آسمان سے زمین پر بھیج دے تو مرزا صاحب کی مسیحیت ختم ہوجائے اس لیے یہ دعویٰ کیا کہ مرنے کے بعد کسی کا زندہ ہونا ناممکن اور محال ہے اور اس آیت حرم علی قریۃ اہلکنھا انھم لا یرجعون۔ سے استدلال کیا کہ مرنے کے بعد زندہ ہو کر دوبارہ دنیا میں آنا ناممکن ہے چناچہ مرزا صاحب ازالۃ الاوہام ص 565 میں لکھتے ہیں۔ ” اس میں شک نہیں کہ اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ در حقیقت مسیح بن مریم (علیہ السلام) اسرائیلی نبی فوت ہوگیا ہے ہر ایک مسلمان کو ماننا پڑے گا کہ فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ آ نہیں سکتا کیونکہ قرآن اور حدیث دونوں بالاتفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مرگیا پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئیگا اور قرآن کریم انھم لا یرجعون۔ کہہ کر ہمیشہ کے لیے ان کو رخصت کرتا ہے “ انتہیٰ جواب : مرزائے قادیان کا یہ استدلال کرنا ” مردہ کا دوبارہ زندہ ہونا “ قطعاً غلط ہے ہم نے بتلا دیا کہ اس آیت کی تفسیر میں کئی قول ہیں اگر آیت میں رجوع سے رجوع الی اللہ مراد لیا جائے جیسا کہ پہلے قول میں ذکر ہوا تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جن بستی والوں کو ہم نے ہلاک کردیا ان کے لیے یہ بات حرام اور ممنوع ہے کہ وہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے لیے ہماری طرف نہ لوٹیں ہم ان کے اعمال لکھ رہے ہیں اگر وہ مر بھی جائیں تو ہماری طرف انکالوٹنا اور ہماری حضوری میں حاضر ہونا ضروری ہے اس روز ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا اور آیت کے یہ معنی۔ آیت کے بقیہ الفاظ فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ وانا لہ کاتبون۔ کے ساتھ غایت درجہ مربوط ہیں پس اگر آیت کے یہ معنی لیے جائیں تو مرزائے قادیان کے دعوے کے ساتھ اس آیت کا کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ اس آیت میں محشر کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے مرنے کے بعد دنیا میں دوبارہ رجوع کا کوئی بیان نہیں اور اگر آیت میں رجوع سے دنیا کی طرف رجوع اور دوبارہ آنا مراد لیا جائے تب بھی مرزا صاحب کے لیے ذرہ برابر مفید نہیں اس لیے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بےبس اور عاجز ہے یہ بات اس کی قدرت میں نہیں کہ مرنے کے بعد خود زندہ ہو کر دوبارہ دنیا میں آسکے تاکہ اپنی گزشتہ برائیوں کا کفارہ کرسکے اور زمانہ ماضی کی تقصیرات کی تلافی کرسکے۔ یہ بات آدمی کی قدرت میں نہیں جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فلا یستطیعون توصیۃ ولا الی اہلہم یرجعون مطلب یہ ہے کہ خود بخود زندہ ہو کر اپنے اہل و عیال کی طرف رجوع نہیں کرسکتا۔ معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر خدا بھی کسی کو زندہ کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے، قرآن کریم میں متعدد مراضع میں اسی دار دنیا میں مردوں کا دوبارہ زندہ کرنا مذکور ہے اس سلسلہ میں ذیل میں چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ پہلا واقعہ : مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے۔ فخذ اربعۃ من الطیر فصرھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزء ثم اذعھن یاتینک سعیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اللہ تعالیٰ سے درخواست کی۔ رب ارنی کیف تحی الموتی۔ اے میری پروردگار مجھ کو دکھلا دیجئے کہ آپ مردوں کو کیونکر زندہ کریں کریں گے تاکہ مجھ کو عین الیقین حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ چار پرندوں کے ٹکڑے کرکے پہاڑوں پر رکھ دو ۔ وہ زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس چلے آویں گے۔ چناچہ چاروں پرندوں کی بوٹیاں پہاڑوں پر رکھی گئیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پکانے پر وہ زندہ ہو کر آگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور چاروں پرندوں کا زندہ ہونا ان کو دکھلا یا حق جل شانہ کا یہ ارشاد فخذ اربعۃ من الطیر الخ فاء تفریعیہ کے ساتھ آیا ہے جو رب ارنی کیف تحی الموتی پر متفرع ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ چار پرندے ذبح کریں اور پھر ان کے دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرلیں مگر مرزائے قادیان کہتا ہے کہ نہ کوئی پرندہ زندہ ہوا اور نہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی کوئی دو قبول ہوئی بلکہ دعا پر ان کو یہ حکم ہوا کہ مسمر یزم کے ذریعہ پرندوں کو اپنی طرف کھینچ لو تو معلوم ہوجائے گا کہ مردے اس طرح زندہ ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب کے قول کی بناء پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عتاب کے مستحق تھے کہ تم نے یہ دعا کیسے مانگی۔ مردوں کا دنیا میں دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں۔ دوسرا واقعہ : اور اسی طرح قرآن کریم میں حضرت عزیز (علیہ السلام) کا قصہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دی اور اس کی سواری کا گدھا بھی مرگیا۔ سو سال اسی حالت میں پڑے رہے اور ان کا کھانا اور پینا بغیر کسی تغیر کے سب اسی طرح ان کے پاس رکھا رہا سو سال کے بعد وہ زندہ ہوئے اور ان کا گدھا جو مرچکا تھا اس کی بوسیدہ ہڈیاں اپنی حالت پر دھری تھیں وہ بھی ان کے روبرو زندہ ہوا۔ اور اپنی آنکھوں سے اپنی مردہ سواری کا زندہ ہونا دیکھ لیا اور کرشمہ قدرت کا مشاہدہ کیا۔ کما قال اللہ تعالیٰ او کالذی مر علیٰ قریۃ وہی خاویۃ علی عروشھا قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا فاماتہ اللہ ماءۃ عام ثم بعثمہ قال کم لبثت قال لبثت یوما او بعض یوم قال بل لبثت ماءۃ عام فانظر الیٰ طعامک وشرابک لم یتسنہ، وانظر الیٰ حمارکم و لنجعلک ایۃ للناس وانظر الیٰ العظام کیف لنشرھا ثم نکسوھا لحما فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ غرض یہ کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) سو سال کے بعد زندہ کئے گئے اور لوگوں کے لیے خدا کی قدرت کی نشانی بنے۔ کما قال اللہ تعالیٰ تعالیٰ ولنجعلک ایۃ للناس۔ تفسیر درمنثور میں حضرت علی ؓ اور ابن عباس ؓ علیہ اور کعب ؓ اور حسن ؓ اور وھب ؓ سے مروی ہے کہ عزیز (علیہ السلام) حقیقۃً مرگئے تھے اور ملک الموت نے ان کی روح قبض کی تھی اور سو سال کے بعد ان کی آنکھوں میں جان آئی جس سے وہ بوسیدہ ہڈیوں کو دیکھ رہے تھے بعد ازاں وہ گدھا جو ان کے سامنے مردہ پڑا تھا وہ ان کے روبرو زندہ کیا گیا۔ بعض دیدہ دلیر مرزائی تو یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا واقعہ خواب و خیال تھا خواب میں ایسا دیکھا تھا اور سورة بقرہ میں پہلی امت کا واقعہ مذکور ہے کہ کئی ہزار شخص موت کے ڈر سے اپنے وطن سے بھاگ گئے۔ ایک منزل پر پہنچ کر بحکم الٰہی سب مرگئے۔ پھر سات دن بعد پیغمبر (علیہ السلام) کی دعا سے زندہ ہوگئے۔ کما قال اللہ تعالیٰ الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت فقال لہم اللہ موتوا ثم احیاھم ان اللہ لذو فضل علی الناس۔ حق جل شانہ نے قرآن کریم میں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے واقعات منکرین حشر کی تردید کے لیے ذکر فرمائے ہیں۔ تاکہ معلوم کریں کہ مردوں کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی قدرت سے خارج نہیں اور یقین کرلیں کہ خدا نے جو قیامت قائم ہونے کی خبر دی ہے وہ حق ہے۔ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے کسی کو موت دے اور بندے عاجز اور بےبس ہیں۔ بندوں میں یہ طاقت نہیں کہ مرنے کے بعد وہ خود لوٹ کر دنیا میں دوبارہ آسکیں۔ البتہ خداوند ذوالجلال جس کو دوبارہ دنیا میں لانا چاہیں تو لاسکتے ہیں۔ اور خداوند تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے وقت اور قیامت سے پہلے کسی کو زندہ کرنا یکساں ہے لہٰذا تم احیاء موتی کو محال سمجھ کر قیامت کا انکار نہ کرو ہم ہر طرح سے قادر ہیں نہ کوئی زندہ ہماری قدرت سے خارج ہوسکتا ہے اور نہ کوئی مردہ۔ ہم جس زندہ کو مردہ کریں تو وہ از خود زندہ نہیں ہوسکتا اور جس مردہ کو زندہ کرنا چاہیں تو اس کی مجال نہیں کہ ہمارے ارادہ اور مشیت سے سرتابی کرسکے۔ مرنے کے بعد بندہ ازخود دنیا کی طرف دوبارہ نہیں لوٹ سکتا البتہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو وہ مردہ کو دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں چند مردوں کے زندہ کرنے کا حال بیان فرمایا اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے اور یہ امر جس کی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے وہ اس کی قدرت سے خارج نہیں۔ ان سب سے اپنی قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ جو چیز تمہیں محال دکھائی دیتی ہے ہم نے اپنی قدرت سے واقع کردیا۔ مگر مرزا اور مرزائی احیاء موتی کو محال سمجھتے ہیں اور جن آیات میں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا حال مذکور ہے طرح طرح سے ان کی تاولیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جن آیات میں موت کا لفظ آیا ہے اس کے معنی بیہوشی یا نیند کے ہیں اور احیاء کے معنی جگانے اور ہوش میں لانے کے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ مسمریزی عمل تھا۔ سبحان اللہ کیا خوب تاویل ہے کیا کوئی اولیٰ عقل والا یہ کہہ سکتا ہے کہ حق جل شانہ نے سورة بقرہ میں جن ہزاروں لوگوں کے گھر سے بھاگ جانے اور مرجانے کا اور پھر ان کے ذمدہ ہونے کا واقعہ ذکر کیا ہے۔ کیا وہ نیند اور بیہوشی سے بھاگے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اول سلا دیا اور پھر ان کو جگا دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا ہی فضل فرمایا کہ ان کو نیند سے جگا دیا معلوم نہیں کہ نیند ایسی کیا مصیبت کی چیز تھی کہ ڈر سے ہزاروں آدمی گھر بار چھوڑ کر بھاگ اٹھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جگا دیا یا بیہوش کرنے کے بعد ان کو ہوش دے دیا اور کیا عزیز (علیہ السلام) کا واقعہ بھی خواب ہی کا واقعہ تھا کہ وہ سو سال تک پڑے سوتے رہے اور ان کے پاس ان کی سواری کا گدھا بھی سوتا رہا۔ اللہ نے سو سال کے بعد دونوں کو خواب سے بیدار کیا۔ تیسرا واقعہ : حق جل شانہ نے قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے احیاء اموات کے معجزہ کو کئی جگہ بیان فرمایا اور ان کے احیاء اموات کے واقعات احادیث سے بھی ثابت ہیں مگر مرزا صاحب کی رائے یہ ہے کہ ان میں سے کوئی واقعہ صحیح نہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حقیقتاً کسی مردہ کو زندہ نہیں کیا وہ دراصل قریب الموت آدمی تھے۔ مسمریزم کے عمل سے چند منٹ کے لیے ان میں گرمی پہنچا دیتے تھے۔ اور وہ حرکت کرنے لگتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک معمولی جادوگر تھے جو مسمریزم میں شماق تھے اور قریب الموت بیماروں کو مسمریزم سے حرکت دے دیتے تھے جس سے دنیا کو دھوکہ دینا مقصود تھا کہ لوگ یہ دیکھ کر ان کے معتقد ہوجائیں کہ یہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے بھی ان کے مسمریزی عمل کو بطور مدح اور منقبت قرآن میں بیان کیا اور ان کے معجزات میں اس کا ذکر کیا اور ایسے الفاظ میں اس کو بیان کیا کہ لوگ سمجھیں کہ احیاء اموات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اور باذن اللہ کہہ کر اور اسکو محکم کردیا کہ یہ سب ہمارے حکم سے تھا۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فی الواقع کسی مردہ کو زندہ نہیں کیا بلکہ یہ سب مسمریزی عمل تھا جو میری نزدیک قابل نفرت ہے اگر میرے نزدیک یہ عمل قابل نفرت نہ ہوتا تو ان میں اعجوبہ نمائیوں میں مسیح بن مریم (علیہ السلام) سے کم نہ رہتا۔ سب کو معلوم ہے کہ مسمریزم کا عمل سو برس سے ایجاد ہوا ہے مگر مرزا صاحب یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے احیاء اموات کا ذکر ہے وہ سب مسمریزی تحریک تھی۔ اے مسلمانو ! جس خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو احیاء موتیٰ کا معجزہ عطاء کیا کہ وہ خدا کے حکم سے مردے زندہ کرتے تھے تو کیا اس خدا کو یہ قدرت نہیں کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوبارہ زندہ کرکے پھر دنیا میں بھیج دے اور مرزا صاحب دیکھتے ہی رہ جائیں۔ اے مسلمانو ! کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی بیباکانہ تحریف ہوسکتی ہے کہ اس قسم کی بیباکی صریح آیات قرآنیہ کا انکار نہیں مرزا صاحب کو مسیح موعود بننے کا بہت شوق تھا لیکن اس کے لوازم اور آثار سے بالکل عاری اور خالی تھے اس لیے مرزا صاحب کو ڈر ہوا کہ دعوائے مسیحیت کے ساتھ احیاء موتی اور ابراء اکمہ اور ابرص کا معجزہ بھی چاہئے اس لیے سرے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے احیاء موتی کے معجزہ کا انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ معجزہ نہ تھا بلکہ مسمریزمی عمل تھا اور میں اسے قابل نفرت سمجھتا ہوں اس طرح اپنی جان بچائی۔ چوتھا واقعہ : ایک واقعہ احیائے موتیٰ کا قرآن کریم میں یہ مذکور ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک شخص مارا گیا جس کا قاتل معلوم نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرکے اس کا ایک ٹکڑا اس مردہ پر مارو تو وہ زندہ ہو کر خود اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا نام بتلا دیا۔ یہ واقعہ سورة بقرہ کی اس آیت واذا قتلتم نفسما فادرء تم فیہا الخ میں مذکور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کا حال ظاہر فرمایا اور اسی وجہ سے اس قصہ کے ختم پر یہ فرمایا کذلک یحی اللہ الموتی ویریکم ایاتہ لعلکم تعقلون۔ مگر مرزائے قادیان کہتا ہے کہ یہ نہ تو قدرت خداوندی کا کرشمہ تھا اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اور بوٹی لگانے سے کوئی مردہ زندہ نہیں ہوا تھا بلکہ معمولی بات تھی کہ مسمریزم کے عمل سے مردہ کو حرکت ہوگئی تھی۔ معاذ اللہ معاذاللہ۔ پس اگر یہ معمولی حرکت تھی تو قاتل کا نام کیسے معلوم ہوا اور کس نے بتلایا اور یہ مسمریزم کس نے سکھایا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قاتل کو بلا کر مسمریزم کا طریقہ سمجھا دیا تھا یہ تو قاتل کے معلوم کرنے کا بڑا عمدہ طریقہ ہے جس سے پولیس کو قاتل کے گرفتار کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے مرزا صاحب اگر یہ نسخہ گورنمنٹ برطانیہ کو بتا دیتے تو بڑا انعام ملتا۔ پانچواں قصہ : اور موسیٰ (علیہ السلام) ہے کے ایک دوسرے قصہ میں ہے۔ واذ قلتم یموسیٰ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ فاں ذتکم الصاعقۃ وانتم تنظرون ثم بعثناکم من بعد موتکم لعلکم تشکرون۔ یعنی یاد کرو اے نبی اسرائیل جب تمہارے بڑوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تیری بات کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کھلم کھلا ظاہری طور پر اپنی آنکھوں سے خدا کو نہ دیکھ لیں اس پر بجلی نے تم کو آپکڑا اور ہلاک کردیا اور تم دیکھ رہے تھے پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے مرے پیچھے ہم نے تم کو دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر کرو کہ اللہ نے تم کو دوبارہ زندگی بخشی اور تفسیر درمنثور میں ہے کہ وہ ستر آدمی تھے جن کو موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھ کوہ طور پر کلام الٰہی سننے کے لیے لے گئے تھے وہ سب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے۔ چھٹا واقعہ : ایوب (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بنی تھے اور نہایت خوشحال تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا پیش آیا کہ مال و دولت سب جاتا رہا اور اولاد رب کر مرگئی اور خود طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے بالآخر جب اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت اور عافیت عطا کی اور مری ہوئی اولاد کو دوبارہ زندہ کردیا۔ کما قال اللہ تعالیٰ واتینہ اہلہ ومثلہم معہم رحمۃ من عندنا عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبد اللہ بن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ جو اولاد ان کی مرگئی تھی بعینہٖ وہ دوبارہ زندہ کردی گئی۔ امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ ظاہر قرآن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعینہٖ زندہ کر دئیے گئے۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 326 ج 11) ۔ کیا مرزا صاحب کے نزدیک یہ سارا مسمریزم تھا اور کیا اس زمانہ میں مسمریزم موجود اور شائع تھا جس کو لوگ استعمال کرتے تھے سب کو معلوم ہے کہ اب سے سو سال پہلے مسمریزم کا کہیں وجود ہی نہ تھا غرض یہ کہ مرزا اور مرزائیوں نے قرآن کریم کو ایک کھلونا بنا رکھا ہے جو زبان پر آیا وہ کہہ دیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے چار پرندوں کے زندہ ہونے کو مسمریزمی قوت بتلا دیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جو معجزات قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کو بھی مسمریزمی عمل قرار دے دیا اور یہ امر سب کو معلوم ہے کہ عمل مسمریزم یقینی طور پر سحر ہے تو مرازا صاحب کی تاویلوں کا مطلب یہ کہ انبیاء (علیہ السلام) اولوالعزم سب ساحر اور جادوگر تھے مسمریزم کے عمل سے لوگوں کو عبائبات دکھلا کر مسخر کرلیتے تھے۔ تو اس لحاظ سے مسمریزم کا عمل کرنے والوں کو انبیاء کہنا بھی جائز ہونا چاہئے مرزا صاحب کے نزدیک احیاء موتیٰ وغیرہ جیسے معجزات کو ماننا تو مشر کا نہ خیال ہے اور مسمریزم جیسے اعمال سحر کو ماننا یہ موحدانہ خیال ہے مرزا صاحب کو نبوت کا دعویٰ ہے اور معجزات کا ظہور ان سے محال ہے اس لیے وہ انبیاء کے معجزات کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور ان کی توہین کے درپے ہیں۔ کبرت کلمۃ تکرج من افواھھم ان یقولون الا کذبا۔ خلا صۂ کلام یہ کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان چند واقعات کا ذکر فرمایا کہ جن میں مردوں کا دوبا رہ دنیا میں زندہ کرنا ذکر فرمایا جس سے مقصود اظہار قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح قیامت کے روز مردوں کے زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پس اگر مرزا اور مرزائیوں کے نزدیک نقیضین اور ارتفاع نقیضین کی طرح احیاء موتی عقلاً محال اور ناممکن ہے تو پھر قیامت کا بھی کھل کر انکار کردیں کیونکہ قیامت نام ہی احیاء موتی کا ہے جو تاویل احیاء اموات کی ان آیات میں کی ہے۔ وہی تاویل قیامت کی آیات میں بھی ہوسکتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں یحی الموتی اور احیاہم۔ وغیرہ وغیرہ اس قسم کے الفاظ صراحۃً مذکور ہیں اور ان آیات کے علاوہ متعدد احادیث سے بطور معجزہ احیاء اموات ثابت ہے تفصیل کے لیے زرقانی شرح مواہب اور نعیم الریاض شرح شفائے عیاض دیکھیں۔ بلکہ بطریق کرامت اولیاء اللہ سے بھی احیاء اموات ثابت ہے مگر یہ روایتیں تاریخی ہیں اور کتب معتبرہ میں مذکور ہیں اور ان کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا بہر حال مرزائے قادیان کے تکذیب اور تردید کے لیے کافی اور وافی ہیں اور مرزا اور مرزائی اس بارے میں ایک حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ کے والف حضرت عبد اللہ ؓ نے شہید ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کی کہ مجھ کو پھر دنیا میں رجوع کی اجازت ہو تاکہ دنیا میں جاکر دوبارہ تیری راہ میں جہاد اور قتال کروں اور پھر تیری راہ میں مارا جاؤں اور شہادت حاصل کروں اس پر ارشاد ہوا۔ انی قضیت الہم ل ایرجعون اور ایک روایت میں ہے قد سبق القول منی انھم لا یرجعون یعنی میں پہلے یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ مرنے کے بعد لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔ جواب : یہ ہے کہ اس کا مطلب وہی ہے کہ جو پہلے بیان کرچکے کہ اگر کوئی شخص دنیا میں دوبارہ آنے کی آرزو کرے کہ دنیا میں دوبارہ آکر اعمال صالحہ کرسکوں اور درجات عالیہ کے حصول کا سامان کرسکوں تو یہ آرزو پوری نہ ہوگی۔ بارگاہ خداوندی کا عام قانون اور عام قاعدہ یہی ہے اسی بناء پر حضرت عبد اللہ ؓ کی درخواست منظور نہ ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کو یہ قدرت بھی نہیں کرو بطور خرق عادت کسی مردو کو زندہ کرسکے، خاص کر جب کہ خدا نے خود اپنے کلام میں خبر دے دی ہے کہ ہم نے بہت سے مردوں کو دنیا میں دوبارہ زندہ کیا تاکہ منکرین حشر کو معلوم ہوجائے کہ اسی طرح خدائے تعالیٰ قامت میں مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ مرزایؤں سے ایک سوال بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ مرنے کے بعد ان کا روبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنا محال اور ناممکن ہے تو سوال یہ ہے کہ آپ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت اور حیات سے کیا بحث۔ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے مدعی ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی مسیحیت کو دلائل سے ثابت کریں کسی نبی کے وفات پاجانے سے مرزا صاحب کی یا کسی اور کی مسیحیت یا نبوت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مرزا صاحب کو بھی اس کا اقرار ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات سنہ 1300 ھ میں نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مرتے ہی مرزا صاحب ان کے خلیفہ اور جانشین ہوگئے بلکہ اس سے اٹھارہ سو سال پہلے ہوچکی ہے تو اب مرزا صاحب بتلائیں کہ وہ کسی دلیل سے حضرت عیسیٰ کے خلیفہ اور جانیشن بنے اور یہ بتلائیں کہ یہ امر کس دلیل سے ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع یا وفات کے اٹھارہ سو سال بعد قادیان میں انکا خلیفہ اور جانشین پیدا ہوگا اور یہ بتلائیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مرنے کے بعد دوسرے ” عیسیٰ “ کے نکلنے تک اس قدر مدت کیوں درکار ہے ان تمام باتوں کو دلائل سے ثابت کریں اور میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ساری امت مرزائیہ مر بھی جائے تب بھی ان باتوں کو ثابت نہیں کرسکتی۔ غرض یہ کہ جب مرزا صاحب مدعی عیسویت ہیں تو اپنے دعوائے عیسویت کو مع شرائط اور لوازم کے ثابت کرنا ان کے ذمہ ہے ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ہم حیات عیسیٰ (علیہ السلام) کے مسئلہ پر گفتگو کریں۔ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ قرآن اور حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ آپ اپنی عیسویت کے دلائل پیش کریں۔ (ع) ” عیسیٰ “ نتواں گشت بتصدیق خرے چند (2) حتی اذا فتحت یاجوج وما جوج وھم من کل حدب ینسلون۔ یاجوج وماجوج کے کھلنے سے اس دیوار ذوالقرنین کا کھلنا مراد ہے جس کے پیچھے وہ بند ہیں یاجوج وماجوج کا خروج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور دجال کے قتل کے بعد ہوگا اور یاجوج وماجوج نسل آدم (علیہ السلام) سے دو قومیں ہیں جن کی تعداد کی کوئی حد نہیں یہ لوگ یا فث بن نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور یافث بن نوح (علیہ السلام) ترک کے جد اعلیٰ ہیں اور ترک انہی میں کی ایک شاخ ہیں جو سدذوالقرنین کے پیچھے متروک یعنی چھوڑ دیئے گئے تھے اس لیے ان کو ترک کہتے ہیں تفصیل سورة کہف کے اخیر میں ذوالقرنین کے قصہ میں گزر چکی ہے اور خروج یاجوج وماجوج کا ذکر بہت سی احادیث میں آیا ہے جن میں چار حدیثیں بہت مفصل ہیں جن کو حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے وہاں دیکھ لی جائیں۔ خلاصہ انکا یہ ہے کہ اول شام اور عراق کے درمیان سے دجال خروج کرے گا اور فتنہ برپا کرے گا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) جامع مسجد دمشق کے مشرقی منارہ پر آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو اپنے نیزہ سے ماریں گے بعد ازاں دیوار ذوالقرنین کے ٹوٹ جانے سے یاجوج وماجوج نکل پڑیں گے اور کثرت کی وجہ سے ہر طرف پھیل جائیں گے چشموں اور نہروں کا پانی پی جائیں گے لوگ اپنے مکانات اور قلعوں اور تہہ خانوں میں محصور و مستور ہوجائیں گے اور اپنے مواشی کو بھی ساتھ لے جائیں گے جب بظاہر کوئی آدمی باہر نظر نہ آئے گا تو یاجوج و ماجوج میں سے کوئی کہنے والا کہے گا کہ زمین والوں سے تو ہم نے فراغت پائی اب آسمان والے رہ گئے ایک آدمی اپنا تیر آسمان کی طرف چلائے گا۔ اللہ کی طرف سے ان کو فتنہ میں مبتلا کرنے کے لیے وہ تیر اوپر سے خون میں ڈوبا ہوا واپس آئے گا۔ وہ سمجھیں گے کہ ہم نے آسمان والوں کا بھی کام تمام کردیا اس طرح سے یاجوج وماجوج ہر طرف پھیل جائیں گے اور لوگوں میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہ ہوگی تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوگی کہ آپ (علیہ السلام) میرے بندوں کو لے کر کوہ طور پر چلے جائیں پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب اللہ کی طرف رجوع کریں گے اور دعا مانگیں گے اللہ تعالیٰ ان کی دعا سے یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک طاعونی کیڑا پیدا کردیں گے جس سے وہ سب ایک ہی رات میں مرجائیں گے اور ان کی عفونت اور بدبو کی وجہ سے زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہوجائے گا تو عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب اللہ کی طرف رجوع کریں گے اور دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے ایسے پرندے نازل کرے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی طرح لمبی ہوں گے وہ ان لاشوں کو اٹھا کر جہاں خدا تعالیٰ چاہے لے جاکر پھینک دیں گے پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک عظیم اور عام بارش نازل کرے گا جو چالیس دن تک برابر برستی رہے گی اس بارش سے زمین ڈھل جائیگی اور کھیتوں اور باغوں کی پیداوار کی کوئی حد نہ رہے گی اور جانور اس قدر فربہ ہوجائیں گے کہ ایک بکری کا دودھ ایک خاندان کے لیے کافی ہوگا بعد ازاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خانہ کعبہ کا حج کریں گے اور حج اور عمرہ کے بعد مدینہ منورہ جائیں گے اور وہیں انتقال فرمائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور آنحضرت ﷺ کے قریب عائشہ صدیقہ ؓ کے حجرہ میں مدفون ہونگے بعد ازاں کچھ عرصہ تک لوگ اسی فراخی اور خوش حالی میں ہونگے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جس سے ہر ایک مومن بندہ کی روح قبض ہوجائے گی اور زمین پر صرف بدکار لوگ رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح عورتوں سے کھلم کھلا جفتی کریں گے اور یہ لوگ بدترین خلائق ہوں گے باوجود یکہ صورت انسانی ہوگی مگر گدھوں کی طرح بےعقل اور بےحیا اور بےشرم ہونگے اور انہی پر قیامت قائم ہوگی۔ (3) انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم۔ اس آیت میں وما تعبدون من دون اللہ میں صرف اصنام (بت) مراد ہیں کیونکہ خطاب بت پرستوں ہی سے ہے لیکن اگر کلمہ ما کو عام رکھا جائے تو پھر اس میں شرط عدم المانع کے قید معتبر ہوگی۔ یعنی عابدون کے ساتھ معبودوں کے جہنم کا ایندھن ہونے کا حکم اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ بشرطیکہ ان فرضی معبودوں میں کوئی امر مانع دخول نار سے نہ ہو۔ جیسے انبیاء اور ملائکہ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت عزیر جن کو بہت سے لوگوں نے معبود ٹھہرا لیا ہے ان حضرات کی مقبولیت اور وجاہت اس امر سے مانع ہے کہ وہ اس حکم میں شریک ہوں جیسا کہ آئندہ آیت ان الذین سبقت لہم منا الحسنی اولئکم عنھا مبعدون۔ میں اس کی تصریح فرما دی اور بتال دیا کہ خدا کے وہ مقبول اور برگزیدہ بندے جو سعادت ازلی سے بہرہ یاب ہوچکے ہیں اگرچہ کافروں نے ان کو معبود بنا لیا وہ اس حکم میں داخل نہیں شیاطین اور اصنام اپنے عابدین کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور خدا کے یہ مقبول بندے جہنم سے بہت دور رہیں گے کیونکہ یہ حضرات لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کا حکم دیتے اور کفر اور شرک سے نہایت سختی کے ساتھ منع کرتے تھے یہ حضرات تو کفر اور شرک سے بری اور بیزار اور اس نے منع کرنیوالے تھے، ان کو دوزخ سے کیا واسطہ ان کے لیے تو وہم و گمان سے بڑھ کر نعمتیں اور کرامتیں ہوں گی۔ بالفرض اگر کوئی انبیاء اور ملائکہ کو معبود بنا بھی لے تو ان کے معبود بنانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ حضرات اپنے عابدوں کے ساتھ ہرگز جہنم میں نہیں جائیں گے ان کے لئے ہماری طرف سے پہلے ہی سے سعادت اور عزت اور کرامت کا حکم صادر ہوچکا ہے۔ ان مشرکین کے اصل معبود تو شیاطین ہیں جن کے اغواء سے انہوں نے کفر اور شرک کیا وہ اپنے عابدین کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور عذاب میں مبتلا ہونگے۔ اور بت اور پتھر کی مورتیں تو بےقصور ہیں۔ ان پر جہنم کا عذاب نہیں بلکہ وہ بحکم خداوندی کافروں کے لیے عذاب ہوں گے اور یہ بت اور پتھر کافروں کو عذاب دینے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے تاکہ کافروں پر غم اور حسرت کا اضافہ ہو کہ ان کی پرستش کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے۔ شجر اور حجر لکڑی اور پتھر پر نہ کوئی عذاب ہے اور نہ کوئی ثواب ان کا جہنم میں ڈالا جانا کافروں کی توبیخ اور تبکیت کے لیے ہوگا جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ چاند اور سورج کو بھی لپیٹ کر جہنم میں ڈالا جائے گا چاند اور سورج کا جہنم میں ڈالا جانا بطور عذاب کے رہو گا بلکہ چاند اور سورج کے پرستاروں کی تحقیر و تذلیل کے لئے ہوگا۔ (4) یوم نطوی السماء جس دن ہم آسمانوں کو لپیٹ دیں گے۔ اور دوسری جگہ یہ ارشاد فرمایا وما قدروا اللہ حق قدرہ والارض جمیعا قبضتہ یوم القیامۃ والسموت مطویات یبمینہ اس آیت میں جو قبضنہ مٹھی، اور یمین کا ذکر آیا ہے سو فرقہ مجسمہ اور مشبہہ کے نزدیک اس سے عضو معروف مراد ہے اور تمام اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں قبضہ اور یمین سے عضو اور جارحہ کے معنی مراد نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانیت اور مشابہت سے پاک اور منزہ ہے بلکہ اس سے کمال قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ یہ اجسام عظیمہ یعنی آسمان و زمین اللہ کے سامنے ایسے حقیر اور صغیر ہیں جیسے ہماری مٹھی میں کوئی چیز ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ایک معمولی اور حقیر ہوگی۔ (5) کطی السجل للکتب علماء محققین کے نزدیک سجل کے معنی صحیلہ اور طومار کے ہیں اور اسی معنی کو امام ابن جریر (رح) نے اختیار کیا۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ سجل ایک فرشتہ ہے جو نامہ ہائے اعمال پر مقرر ہے جب کوئی بندہ مرجاتا ہے تو اس کا نامہ اعمال سجل کے پاس آجاتا ہے اور وہ اس کو تہ کرکے قیامت کے لیے رکھ لیتا ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ سجل ایک کاتب وحی کا نام ہے جو آنحضرت ﷺ کی وحی کی کتابت کیا کرتا تھا یہ دونوں قول ضعیف ہیں اس بارے میں جو روایتیں آئی ہیں وہ موجوع ہیں یا قریب بہ موجوع ہیں نیز تشبیہ سے مقصود و تفہیم ہوتی ہے اور یہ جب ہوتا ہے کہ جب کسی معروف شئے کے ساتھ تشبیہ دی جائے جیسے عام طور پر لوگ جانتے ہوں اور صحابہ کرام میں کوئی شخص سجل کے نام سے معروف و مشہور نہ تھا۔ کاتبین وحی سب کے سب معروف و مشہور تھے ان میں سے کسی کا بھی نام سجل نہ تھا اور نہ کسی فرشتہ کا نام سجل ہونا ثابت ہے لہٰذا صحیح قول یہ ہے کہ سجل سے صحیفہ اور طومار کے معنی مراد ہیں جیسا کہ ابن عباس ؓ اور مجاہد ؓ اور قتادہ (رح) وغیرہم سے منقول ہے۔
Top