Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سربرآوردہ لوگوں کی طرف پس کہا (موسیٰ (علیہ السلام) نے ) میں رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے
ربط آیات گزشتہ آیات میں قرآن پاک کی حقانیت و صداقت بیان ہوئی۔ نیز فرمایا کہ جو لوگ قرآن پاک سے اعراض کرتے ہیں ان کے ساتھ سزا کے طور پر شیاطین مقرر کردیئے جاتے ہیں۔ جو انہیں ہمیشہ گمراہ کرتے رہیت ہیں اور دوزخ تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے وہاں پہنچ کر ایسے لوگ افسوس کا اظہار کرینگے مگر اس وقت کا تاسف کچھ مفید نہیں ہوگا اور پھر تابع اور متبوع سب عذاب میں مشترکہ طور پر شریک ہوں گے۔ اس کے بعد حضور ﷺ کو تسلی دی گئی کہ آپ وحی الٰہی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے کھیں کیونکہ آپ صراط مستقیم پر ہیں اور نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ اپنے مقررہ وقت پر ضرور عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ فرمایا یہ قرآن پاک آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے باعث عزت و شرف ہے۔ قیامت والے دن اس کے بارے میں باز پرس ہوگی کہ دنیا میں تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ تمام ابنیاء (علیہم السلام) اور تمام آسانی کتب اس بات پر متفق ہیں کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اب آج کی آیات میں اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ اسللام کا ذکر ہے اور ساتھ جزائے عمل کا مسئلہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے موقف جزا کا تمسخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضور ﷺ کی قوموں کے حالات آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ فرعون کے سرداران بھی بڑے فرد اور سرکش تھے۔ جب کہ سرداران قریش بھی ایسے ہی تھے۔ دونوں اقوام نے اپنے اپنے نبی کو سخت ایذائیں پہنچائیں۔ مگر بالآخر اپنے برے انجام کو پہنچے چناچہ یہاں پر اللہ نے مسویٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ فرما کر حضور ﷺ کو تسلی دی ہے ۔ ارشاد ہتا ہے ولقد ارسلنا مسوی بایتنآ الی فرعون و ملائہ اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا موسیٰ علیہ اسللام کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سربرآور وہ لوگوں کی طرف قالم ابی رسول رب العلمین تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ میں تمام جہانوں کے پروردگار کافر ستادہ ہوں میں خود نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر تمہاری طرف بھیجا میں تمہیں توحید کی دعوت دیتا ہوں اور تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ کفر اور شرک سے باز آ جائو اور صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے خاص طور پر فرمایا ھل لک الی ان تزکی واھدیک الی ربک فتحنثی (سورۃ النزعت) کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے اور میں تجھے تیرے پروردگار کا راستہ بتائوں تاکہ تجھ میں خوف پیدا ہو۔ یہاں پر نشانیوں سے مراد وہ نو معجزات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسویٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے ۔ ان میں دو بڑی نشانیاں عصا اور ید بیضا تھیں۔ سورة الاعراف میں آتا ہے فارسلنا علیھم الطوفان والحراد والقمل والضفادع واللہ ایت مفصلت (آیت 133- ) ہم نے فرعونیوں پر طوفان ، ٹڈی دل ، جوئیں مینڈک اور خون جیسی واضح نشانیاں بھیجیں ، مگر وہ تکبر کرتے رہے اور وہ مجرم لوگ ہی تھے۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جن نشانیوں کا ذکر ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ اس سے یہی نو معجزات مراد ہیں۔ فرمایا جب موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس آئے فلما جآء ھم بایتنآ اذا ھم منھا یضحکون ۔ تو وہ لوگ ان نشانیوں کا مذاق اڑانے لگے۔ انہوں نے خود موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بیہودہ باتیں کیں۔ اگلی آیت میں آ رہا ہے کہ آپ کو جادو گر کہا اور معجزات کو کرتبوں سے تعبیر کیا۔ حالانکہ معجزہ تو اللہ کے نبی کی صداقت کی نشانی ہوتا ہے اور ایسی چیز ہر شخص پیش نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حمک سے ہوتا ہے۔ الغرض فرعون اور اس کی قوم نے معجزات کی ہنسی اڑائی۔ بلاوجہ ہنسی ویسے بھی کوئی اچھی چیز نہیں چہ جائیکہ اللہ کے نبی اور اس کے لائے ہوئے معجزات کی ہنسی اڑائی جائے۔ ہنسنا اگرچہ ایک طبعی امر ہے مگر حضور ﷺ کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسے۔ آپ زیادہ سے زیادہ مسکرا دیتے تھے۔ بعض اوقات ہنستے بھی تھے مگر قہقہہ نہیں لاگتے تھے کہ یہ غفلت کی علامت ہے۔ اسی لئے دوسری جگہ ہے کہ آگے آنے والی مشکل منزل کے پیش نظر انسان کو ہنستا کمر اور رونا زیادہ چاہئے بہرحال اللہ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نشانیاں دے کر بھیجا وما نریھم من ایۃ الا وھی اکبر من اختھا ہم ان لوگوں کو بھی جو بھی نشانی دکھاتے تھے وہ پہلی نشانی سے بڑھی ہوئی ہوتی تھی۔ تمام معجزات ایک سے ایک بڑھ کر تھے ، مگر فرعونیوں نے ان کو تسلیم نہ کیا بلکہ ہنسی مذاق میں اڑایا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا واخذنھم بالعذاب لعلھم یرجعون کہ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا تاکہ وہ باز آجائیں۔ ان کی یہ گرفت معمولی نوعیت کی تھی اور محض تنبیہہ کے لئے تاکہ وہ اللہ کے نبی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے سے باز آجائیں۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے بنی نوع انسان کے لئے دنیا میں دستور قائم کر رکھا ہے کہ ہم انہیں کبھی راحت دے کر آزماتے ہیں اور کبھی تکلیف میں مبتلا کر کے پھر جب لوگ آسودگی کی حالت میں ہمارا شکر ادا نہیں کرتے تو ہم ان پر بعض مصائب ڈال دیتے ہیں جس کا مقصد انہیں تنبیہہ کرنا ہتا ہے تاکہ وہ برائی سے ہٹ کر نیکی کی طرف آجائیں چناچہ فرعونیوں کو بھی اللہ نے بطور تنبیہہ معمولی قسم کی سزا میں مبتلا کردیا۔ دعا کی درخواست جب فرعون اور اس کے حواریوں کو تکلیف پہنچی وقالوایآ یہ السحر تو کہنے لگے ، اے جاوگر ! موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر خطاب کیا کیونکہ اس زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا ویسے ساحر عالم کو بھی کہا اجتا تھا۔ فرعون نے بڑے بڑے ماہر ساحر اپنے دربار میں جمع کر رکھے تھے جن سے وہ امور سلطنت میں مشروے لیا کرتا تھا تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی کہا کہ اے جادور ! ادع لنا ربک بما عھد عندک اپنے پروردگار سے ہمارے لئے دعا کرو اس عہد کے ساتھ جو اس نے آپ کے ساتھ کر رکھا ہے یا جو اس نے آپ کو سکھا رکھا ہے۔ کہنے لگے تمہاری دعا کی وجہ سے ہی ہماری تکلیف دور ہو سکتی ہے اور اگر ہماری یہ مشکل حل ہوگئی۔ اننا لمھتدون تو ہم تیری بات مان کر راہ راست پر آجائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتجیے میں ان کی تکلیف کو دور کردیا تو ارشاد ہوا فلما کشفنا عنھم العذاب جب ہم نے ان سے سزا کو دور کردیا اذا ھم ینکثون تو انہوں نے اس عہد کو توڑدیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کو تسلیم نہ کیا بلکہ حسب سابق آپ کا اور آ پکے لائے ہوئے معجزات کا تمسخر اڑانے لگے ۔ گویا انہوں نے راہ رسات پر آجانے کا عہد توڑ دیا۔ فرعون کا تکبر آگے اللہ نے فرعون کے غرور وتکبر کا ذکر کیا ہے ونادی فرعونیقومہ اور فرعون نے اپنی قوم کو پکارا قال یقوم کہنے لگا ، اے میری قوم کے لوگو ! الیس لی ملک مصر کیا مصر کی بادشایہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے ؟ وھذہ الانھر تجری من تحتی اور کیا یہ نہریں میری نہیں ہیں جو میرے محلات کے سامنے بہہ رہی ہیں۔ اس زمانے میں مصر کی سلطنت اردگرد کی سلطنتوں سے مال و دولت تجارت اور زراع تکے لحاظ سے بڑھی ہوئی تھی۔ بڑا خوشحال ملک تھا۔ دریائے نیل پر جگہ جگہ ڈیم بنے ہوئے تھے۔ نہریں جاری تھیں ، جن سے آبپاشی خوب ہوتی تھی۔ فرعون نے اس چیز پر غرور کیا کہ دیکھو اتنے خوشحال ملک کی باگ ڈور تو میرے ہاتھ میں ہے۔ افلاتبصرون کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں کس قدر صاحب اقتدار و اختیار ہوں ؟ پھر اگلا سوال کیا ام انا خیر من ھذا الذی ھومھین کیا بھلا میں اس حقیر شخص سے بہتر نہیں ہوں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہ مال و دولت ہے ، نہ فوج ، نہ سلطنت یہ تو ایک بےوقعت سا آدمی ہے بھلا اس کا اور میرا مقابلہ کیا ہے۔ میں تو لازماً اس سے بہتر ہوں۔ پھر کہنے لگا فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب کو مدعی نبوت موسیٰ (علیہ السلام) کو سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے جاتے۔ اس زمانے میں سونے کے کنگن پہننا بہت بڑی امارات اور عزت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ فرعون خود بھی سونے کے کنگن اور مرصع ریشمی لباس پہنتا تھا۔ وہ بہترین گھوڑے پر سواری کرتا تھا یا پھر رتھ پر سوار ہوتا تھا تو کہنعے لگا کہ دنیا میں بڑائی کی یہی نشانیاں ہیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) اس معیار پر پورے نہیں اترتے ، لہٰذا ہم اس کو اللہ کا نبی کیسے تسلیم کرلیں۔ پھر کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) میں جسمانی طور پر بھی ایک نقص ہے ولا یکادیین کہ وہ تو بات بھی اچھے طریقے سے نہیں کر سکات۔ آپ کی زبان میں قدرے سنت تھی۔ جس کی وجہ سے آپ اپنا مافی الضمیر احسن طریقے سے بیان نہیں کرسکتے تھے۔ اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ پروردگار چ میرے سینے کو کھول دے میرے کام کو آسان بنا دے واحلل عقدۃ من لسانی یفقھو قوبی (ہ 27/28) اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں پھر اس دعا نے نتیجے میں آپ بات کرنے کے قابل ہوگئے تھے تاہم لکنت کا کچھ اثر باقی رہ گیا تھا جس کی بنا پر فرعون نے کہا کہ یہ تو بات بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتا تو بھلا یہ شخص مجھ سے کیسے بہتر ہو سکتا ہے ؟ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ مسویٰ (علیہ السلام) کی بات تو سمجھ میں آجاتی تھی مگر آپ کے غلام میں زیادہ فصاحت نہیں تھی ، اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا واخی ھرون ھو افصح منی لساناً (القصص 34- ) میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی میرے ساتھ بھیج دے کیونکہ وہ زبان کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ اگر میری بات کو سمجھنے میں لوگوں کو وقت پیش آئی تو ہارون (علیہ السلام) اس کی وضاحت کردیں گے۔ بہرحال فرعون کہنے لگا کہ نبوت کی دلیل کے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے جاتے اوجآء معہ الملئکۃ مقترنین ، یا کم از کم اس کے ساتھ لگاتار فرشتے آتے جو اس کی نبوت کی تصدیق کرتے تو ہم پھر بھی مان لیتے۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرشتوں کی صورت میں کوئی باڈی گارڈ بھی نہیں ہے ، لہٰذا ہم اس کی دعویٰ نبوت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ قوم کی بےوقوفی اللہ نے فرمایا فاستخف قومہ اس طرقیے سے فرعون نے اپنی قوم کو بیوقوف بنایا۔ چکنی چپڑی باتیں کر کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو قحیر ثابت کر کے قوم کو ورغلایا چناچہ قوم اس کے بہکاوے میں آگئی فاطاعوہ اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی یعنی فرعون کی ہاں میں ہاں ملا دی کہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو کچھ کہتا ہے وہ درست ہے ، فرعون کی قوم واقعی بیوقوف تھی۔ وہ عقل معاش سے تو بخوبی واقف تھے اور دنیا طلبی کو خوب جانتی تھے۔ مگر عقل معاد سے محروم تھے اور نہیں جانتے تھے کہ حساب کتاب کا ایک دن آنے اولا ہے جب اللہ کی بارگاہ میں ذرے ذرے کا حساب دینا پڑے گا اور اس وقت ان کی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی بہت مہنگی پڑے گی ۔ فرعون کی اس قسم کی تقریر سورة مومن میں بھی گزر چکی ہے جب اس نے اپنے حواریوں سے کہ ا کہ مجھے موسیٰ علیہ اسللام کو قتل کرنے دو اور یہ اپنے رب کو بلالے انی اخاف ان یبدل دینکم (آیت 26- ) مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین ہی نہ بدل ڈالے یا زمین میں فساد نہ برپا کر دے۔ بہرحال فرعون نے اپنی چرب زبانی سے قوم کو بیوقوف بنایا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن بنا دیا۔ فرمایا انھم کانوا قوماً فسقین بیشک وہ سب کے سب نافرمان لوگ تھے۔ پوری کی پوری قوم کے ناہنجار ہونے کی بعض دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً قوم نون کے متعلق فرمایا انھم کانوا قوماً عمین (الاعراف 64- ) وہ ساری قوم دل کی اندھی تھی ماسوائے ان نفوس کے جو نوح (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے۔ اسی طرح قوم فرعون کے متعلق سورة مومن میں موجود ہے کہ پوری قوم میں صرف ایک شخص مومن تھا جس کے نام پر سورة کا نام موسوم ہے اور یا پھر فرعون کی بیوی مومنہ تھی ، باقی سب نافرمان ہی تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارے ملک پر شیطان کا غلبہ ہوچکا ہے۔ ہمارا ملک بھی اسی زد میں آیا ہوا معلوم ہوتا ہے جہاں نیکی والے آدمی بالکل قلیل تعداد میں ہیں اور اکثریت ان لوگوں کی ہے ہے جو کافر ، مشرک یا بدعتی ہیں یا پھر کھیل تماشے کے دلدادہ ہیں۔ انہیں نیکی کا کوئی کام آتا ہی نہیں یہ لوگ اسی حالت میں پڑے رہتے ہیں حتیٰ کہ یا تو موت آجاتی ہے اور یا پھر ان پر کوئی آفت ڈال دی جاتی ہے کبھی غلامی میں جکڑے جاتے ہیں۔ کبھی ملک کا کوئی حصہ چھن جاتا ہے۔ طوفان آتے ہیں۔ زلزلے آتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ قوم کی اکثریت نافرمان ہوتی ہے۔ قوم فرعون سے انتقام فرمایا فلما اسفونا جب قوم فرعون نے ہمیں غصہ دلایا بار بار تبلیغ حتی کے باوجود انہوں نے خدا تعالیٰ کو نارضا کردیا انتقمنا منھم تو ہم نے ان سے انتقام لیا فاعرقنھم اجمعین پس ان سب کو پانی میں غقر کردیا۔ صرف چھ لاکھ ستر ہزار آدمی جو موسیٰ علیہ اسللام کے ساتھ تھے۔ وہی بحر قلزم سے پار گئے تھے باقی سب فرعونی بحیرہ قلزم کی لہروں کا شکار بنے۔ فجعلنھم سلفاً پس ہم نے ان کو گنے گزرے لوگ بنا دیا ۔ کتب سماویہ اور تاریخ میں ان کے قصے کہانیاں ہی باقی رہ گئیں اور وہ سب نابود ہوگئے۔ ومثلاً لاخرین اور پچھلوں کے لئے انہیں ایک مثال بنا دیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ دیکھ لیں کہ اس قسم کے سرکشوں کا کیا انجام ہوتا ہے یہ تو بڑے سرکش اور والیان ملک کا حال ہوا۔ بھلا عام لوگوں کے غرور وتکبر کی کیا حیثیت ہے ۔ جو لوگ اللہ کے دین میں روڑے اٹکائیں گے۔ خدا کی شریعت کو ٹھکرائیں گے۔ ان کا انجام بھی سابقہ نافرمان قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔
Top