Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان کے پاس بھیجا تو اس نے ان کو دعوت دی کہ میں تمہارے پاس عالم کے خداوند کا رسول ہو کر آیا ہوں۔
-4 آگے کا مضمون … آیات :56-46 آگے باجمال حضرت موسیٰ ؑ اور فرعکن کی سرگزشت بیان ہوئی ہے جس سے مقصود ایک تو اس انتقام الٰہی کی تاریخی شہادت پیش کرنا ہے جس کا ذکر اوپر آیات 42-41 میں ہوا ہے کہ رسول کی تکذیب کے بعد اس کی قوم کا فیصلہ لازماً ہوجاتا ہے، خواہ رسول کی زندگی ہی میں ہو یا اس کی ہجرت یا موت کے بعد اللہ کا یہ اتقام اس کی ایک مقررہ سنت ہے جس کی گرفت سے کوئی قوم بھی نہیں بچی۔ فرعون جیسا جبار بھی جب اس کی زد میں آیا ہے تو وہ بھی اپنی تمام افواج سمیت غرق کردیا گیا۔ اس کی قوت وصولت اس کے کچھ کام نہ آئی۔ دوسرے یہ اس حقیقت کی مثال ہے جو آیت 40 میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں برباد اور جان بوجھ کر گمراہی کی راہ اختیار کرلیتے ہیں ان کو کسی نشانی سے بھی ہدایت نہیں حاصل ہوتی۔ وہ بڑے سے بڑے معجزات دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ ان کی آنکھیں صرف خدا کے فیصلہ عذاب ہی سے کھلتی ہیں۔ تیسرے اس میں اس حقیقت کی بھی شہادت ہے جو آیت 45 میں مذکور ہوئی ہے کہ اللہ نے جتنے رسول بھی بھیجے سب وہی دعوت و توحید لے کر آئے جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔ کسی رسول نے بھی اللہ تعالیٰکے سوا کسی اور معبود کی عبادت کی دعوت نہیں دی … اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا الی قرعون وملائہ فقال انی رسول رب العلمین 46 آیات، سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن سے مسلح کر کے اللہ تعالیٰنے حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کے پاس بھیجا، یعنی عصا اور ید بیضاء وغیرہ ملا سے مراد قوم فرعون کے وہ اعیان و اکابر ہیں جو اس کے دربار میں بار یاب ہوتے۔ ان الفاظ کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہوچکی ہے۔ فقال انی رسول رب العلمین یہ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت ہے جو انہوں نے فرعون اور اس کے اعیان کو دی۔ یہاں اس کی وضاحت نہیں ہے۔ صرف اجمالی اشارہ ہے لیکن دوسرے مقامات میں تفصیل ہے کہ انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں کو آگاہ کیا کہ وہ ان کے انذار کے لئے خدا کی طرف سے رسول ہو کر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰنے ان کو اپنی طرف سے نشانیاں بھی دی ہیں اور اللہ کے حکم سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ عبادت کے لئے تین دن کی راہ بیابان میں جانے دیا جائے۔
Top