Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انہوں نے (ان سے) کہا کہ بیشک میں رسول ہوں پروردگار عالم کی طرف سے
61 حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا " اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا موسیٰ کو اپنی آیتوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف "۔ جبکہ فرعون اور اس کے اہل کاروں کے پاس دنیاوی مال و منال اور جاہ و جلال کے اعتبار سے بہت کچھ تھا۔ اور اس کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کے پاس ایسی کوئی بھی چیز نہیں تھی۔ پس آنحضرت ﷺ پر تمہارا یہ اعتراض کرنا اے دور حاضر کے منکرو ! کہ نبوت و رسالت سے ان کو کیوں نوازا گیا ؟ آپ ﷺ کی بجائے یہ شرف مکہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں بخشا گیا بالکل ہی لغو اور بےہودہ اعتراض ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں سے نبوت و رسالت کا یہ اعلیٰ ترین شرف اور مقدس ترین مرتبہ و اعزاز دنیاوی مال و منال اور جاہ و جلال کی بنیاد پر نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ہماری مشیت ومرضی اور ہماری حکمت پر منحصر ہے۔ کہ ہم اس سے کس کو نوازیں اور کس طرح نوازیں ۔ { اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } ۔ (الانعام : 125) کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ نبوت و رسالت کی اہلیت اور صلاحیت کس کے اندر ہے۔ نیز حضرت موسیٰ کی بعثت و تشریف آوری کے اس تاریخی حوالے سے اس امر کی ایک اور شہادت پیش فرما دی گئی ہے کہ عقیدئہ توحید تمام انبیاء و رسل کا اجماعی اور متفق علیہ عقیدہ رہا ہے۔ دوسرے انبیائے کرام کی طرح حضرت موسیٰ نے بھی اسی کی دعوت دی کہ یہی اساس ہے ہر دین سماوی کی۔ 62 حضرت موسیٰ کا فرعونیوں کے سامنے اعلانِ حق : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ بیشک میں رسول ہوں پروردگار عالم کی طرف سے "۔ سو حضرت موسیٰ نے ان کے سامنے سب سے پہلے اپنے منصب و مقام کا تعارف کرایا کہ اسے ماننے اور تسلیم کرلینے کے بعد باقی باتوں کا ماننا مشکل نہیں رہتا۔ سو آپ (علیہ السلام) نے اعلان فرمایا کہ بیشک میں رسول اور فرستادہ ہوں پروردگار عالم اللہ وحدہ لاشریک کا۔ پس جو کچھ میں کہتا سناتا ہوں وہ سب اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ہوتا ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اپنے بھیجنے والے کا پیغام بلا کم وکاست پہنچا دینا میرا فرض منصبی ہے۔ اور فرستادہ بھی پروردگار عالم کا ہوں جس کی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ وہ نبوت و رسالت کے ذریعے اپنے بندوں کی روحانی غذا و دوا اور ہدایت و اصلاح کا بندوبست بھی فرمائے۔ پس یاد رکھ لو کہ میرے پیغام کو ٹھکرانا پروردگار عالم سے بغاوت ہوگی۔ جس کا بھگتان تمہیں بعد میں بہر حال بھگتنا ہوگا۔ سو یہ دعوت تھی جو حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے درباریوں اور سرداروں اور نمائندوں کو دی۔ اور ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے انکو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ اور یہ نشانیاں ایسی تھیں جن سے یہ امر واضح ہوجائے کہ آپ واقعی پروردگار عالم کے رسول اور اس کے فرستادہ ہیں اور جو کچھ آپ کہتے سناتے ہیں وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top