Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کر کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہو
(137 ۔ 142) ۔ احد کی لڑائی میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مسلمانوں کو یہ خیال گذرا کہ ہم اسلام کی تائید میں لڑتے ہیں اور حق پر ہیں اور ہمارے دشمن اور مخالف لوگ ناحق پر ہیں اور دین الٰہی کو مٹانا چاہتے ہیں پھر ہماری شکست اور ان کی فتح کیوں اور کس مصلحت الٰہی سے ہوئی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی اور کافروں کی تنبیہ میں یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کی درگاہ میں ہر وقت کام کا وقت مقرر ہے ابھی ان دین الٰہی کے دشمنوں کی تباہی کا وقت نہیں آیا ہے جب وقت مقرر آجائے تو کچھ ان میں سے اپنے حال کی اصلاح کر کے مسلمان ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر پر اڑے رہیں گے فورا جس طرح اگلے لوگ رسولوں کی مخالفت کے سبب سے ہلاک ہوچکے ہیں یہ بھی ہلاک ہوجائیں گے۔ اور تم مسلمان لوگ ہی آخر کو غالب رہو گے۔ چناچہ اس آیت کے نزول کی تاریخ سے دس 10 برس کے اندر فتح مکہ ہو کر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا ویسا ہی ہوگیا۔ اور مسلمانوں کی یہ تھی تسکین فرما دی۔ کہ اگر تمہارے کچھ لوگ اس لڑائی میں زخمی ہوگئے ہیں تو اس سے پہلے کی لڑائی میں ان کے لوگ بھی زخمی ہوچکے ہیں کچھ گھبرانے کی بات نہیں ہے اگر ہمیشہ تمہاری فتح ہوتی تو نہ تمہاری ثابت قدمی کمزوری کے وقت کی جانچی جاسکتی اور نہ اس ثابت قدمی کا اجر تم پاسکتے اور نہ شہادت کا درجہ مل سکتا۔
Top