Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
یقیناً تم سے قبل (مختلف) طریقہ گزر چکے ہیں، سو تم روئے زمین پر چلو پھرو اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے،272 ۔
272 ۔ (آیت) ” سنن “۔ یعنی مختلف طور طریقہ اور ان طور طریقوں پر عمل کرنے والے، مختلف مسلکوں اور مشربوں کے لوگ، مشرک و کافر بھی، موحد و مومن بھی، قال الزجاج والمعنی اھل سنن فحذف المضاف (قرطبی) ساری گزشتہ امتوں اور قوموں کی طرف جامع اشارہ ان الفاظ میں آگیا۔ اور سنۃ کے معنی خود امۃ کے بھی کیے گئے ہیں، اس لیے سنن، امم کا مرادف ہوگا، السنۃ الامۃ والسنن الامم (قرطبی) وقال الفضل ان المراد بھا الامم وقد جاءت السنۃ بمعنی الامۃ فی کلامھم (روح) (آیت) ” سیروا۔ فانظروا “۔ دونوں صیغہ امر کے ہیں۔ لیکن مقصود سیاحت نہیں بلکہ سرکش جاہلی قوموں سے عبرت حاصل کرنا ہے۔ خواہ جس ذریعہ سے بھی حاصل ہو، سیاحت سے، تاریخ سے، وقس علی ہذا۔ لیس المراد الامر بذالک لا محالۃ بل المقصود تعرف احوالھم فان حصلت ھذہ المعرفۃ بغیر السیر فی الارض کان المقصود حاصلا (کبیر) تاریخ اثریات وغیرہ کا مطالعہ اگر صحیح نقطہ نظر اور ایمان ومعرفت کے پہلو سے کیا جائے تو یہ بجائے خود ایک جہاد ہے۔ (آیت) ” المکذبین “۔ یعنی دین حق کی جھٹلانے والی قوموں اور امتوں کا۔
Top