Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 187
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ١٘ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَ اشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا اللّٰهُ : اللہ مِيْثَاقَ : عہد الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی لَتُبَيِّنُنَّهٗ : اسے ضرور بیان کردینا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لَاتَكْتُمُوْنَهٗ : نہ چھپانا اسے فَنَبَذُوْهُ : تو انہوں نے اسے پھینک دیا وَرَآءَ : پیچھے ظُهُوْرِھِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) وَاشْتَرَوْا بِهٖ : حاصل کی اس کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی فَبِئْسَ مَا : تو کتنا برا ہے جو يَشْتَرُوْنَ : وہ خریدتے ہیں
اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ (اس میں جو کچھ لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہوں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے۔
یہ وہی معاہدہ ہے جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گذرا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے سے ہزار ہا برس پہلے دنیا کے ہر ایک دورہ کی مصلحت کے موافق اپے علم ازلی میں ایک قانون قرار دیا ہے جس کو اس دورہ دنیوی کی شریعت کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے اور نبیوں نے اپنی اپنی امتوں سے یہ عہد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں اس شریعت کے موافق عمل ہوگا جو شریعت اس زمانہ کے لئے ٹھہرائی گئی ہے۔ مگر آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے اہل کتاب نے محض اس دشمنی سے کہ یہ نبی آخر الزمان بنی اسماعیل میں کیوں ہوئے ہیں بنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئے اس معاہدہ کی پابندی چھوڑ دی تھی۔ اور نبی آخر الزمان کے اوصاف کی آیتوں کو چھپا ڈالا تھا لوگوں کو اپنی طرف رجوع رکھنے اور اپنی ریاست اور فضیلت قائم رہنے کے لئے تورات کے مسئلے غلط بتاتے تھے۔ اسی معاہدہ کی یاد دہی کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیتیں قرآن شریف میں حسب موقع نازل فرمائی ہیں۔ چناچہ پچھلی آیتوں میں یہود کی ایک غلط بیانی کا ذکر تھا کہ ہر نبی کے لئے آگ کا معجزہ ضرور ہے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں ان کی اس غلط بیان کا جواب دیا۔ اور ان آیتوں میں یہ تنبیہ فرمائی کہ دنیا کے تھوڑے سے لالچ کے لئے اتنے بڑے سخت اور قدیمی معاہدہ کی مخالفت جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے اور پھر اس پر اس بات کی ان کو خوشی ہے کہ ان کی چوری کوئی پکڑا نہیں سکتا یہ ان کی تجارت ایک بڑے ٹوٹے کی تجارت ہے دنیا چند روز ہے اس میں پھر چل کر انہوں نے کچھ کھا کما لیا تو پھر عقبیٰ کے ابدا لآباد عذاب سے بچ کر کہاں جائیں گے وہ اللہ جس کی بادشاہت زمین و آسمان میں ہے کیا کوئی ہے ایسا جو ان کو اس کے عذاب سے چھوڑا سکے بعض روایتوں میں یہ جو ہے کہ یہ آیتیں منافقوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ منافقوں کے حال پر بھی ان آیتوں کا مضمون صادق آتا ہے کہ وہ بھی یہود کی طرح کہتے ہیں کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ورنہ جو شان نزول ان آیتوں کی اوپر بیان کی گئی ہے۔ وہ صحیحین 1 وغیرہ میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ہے جو قابل ترجیح ہے اتنا ضرور ہے کہ اس روایت کے موافق اگرچہ یہ آیتیں اہل کتاب کی شان میں ہیں لیکن حکم ان کا عام ہے اس امت کا کوئی عالم بھی کسی حق بات کو جان بوجھ کر چھپائے گا تو قیامت کے دن اس سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ چناچہ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو عالم جان کر کسی دین کی بات کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 2 اور حاکم نے اس کو بخاری مسلم کی شرط کے موافق صحیح بتلایا ہے 3۔
Top