Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 187
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ١٘ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَ اشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا اللّٰهُ : اللہ مِيْثَاقَ : عہد الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی لَتُبَيِّنُنَّهٗ : اسے ضرور بیان کردینا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لَاتَكْتُمُوْنَهٗ : نہ چھپانا اسے فَنَبَذُوْهُ : تو انہوں نے اسے پھینک دیا وَرَآءَ : پیچھے ظُهُوْرِھِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) وَاشْتَرَوْا بِهٖ : حاصل کی اس کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی فَبِئْسَ مَا : تو کتنا برا ہے جو يَشْتَرُوْنَ : وہ خریدتے ہیں
جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان سے اللہ نے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اسے لوگوں پر واضح کرتے رہنا اور ایسا نہ کرنا کہ اسے چھپانے لگو لیکن انہوں نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے تھوڑے داموں فروخت کر ڈالا پس کیا ہی برے وہ دام ہیں جو حق فروشی کے بدلے حاصل کیے گئے
یہود کو کتاب اللہ دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا : 341: زیر نظر آیت میں علماء یہود کے اس جرم کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کو کتاب دی گئی تھی۔ کہ اس میں جو احکام ہیں بےکم وکاست لوگوں تک پہنچا دو اور اس میں سے کچھ مت چھپاؤ لیکن انہوں نے اپنی دنیوی اغراض کے لئے اور طمع نفسانی کی خاطر اس عہد کی پرواہ نہ کی اور بہت سے احکام کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا اگر وہ اس جرم کے مرتکب نہ ہوتے اور لوگوں تک صحیح صحیح حق پہنچاتے تو پیغمبر اسلام ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی آپ ﷺ کو تسلیم کرلیتے اور آج مخالفت اور سب و شتم سے جو وہ کام لے رہے ہیں اس کی بجائے وہ پیغمبر اعظم و آخر ﷺ کے معین و مدد گار ہوتے کیونکہ اللہ کی کتاب تورات میں تو پیش گوئیاں کھلے اور واضح الفاظ میں موجود ہیں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کے متعلق ہیں۔ پھر اس مخالفت سے انہوں نے دراصل اپنی کتاب جس کو وہ خود بھی کتاب اللہ مانتے ہیں پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کی پھر ان پیشین گوئیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اور بھی بہت سے احکام کو جو تورات میں بڑی وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں چھپایا اور بہت کچھ اپنے پاس سے اور اپنے رسم و رواج سے اٹھا کر اللہ کے احکام میں رکھ دیا ہے اور یہ انہیں پر زور دیتے ہیں اور ان کو ثابت کرنے کی دن رات کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہود کی اس گمراہی کا ذکر کر کے ایک طرف یہود کو ان کے اس جرم سے آگاہ کیا ہے اور دوسری طرف اہل اسلام کو یہ سمجھایا ہے کہ دیکھو اہل کتاب ایسے جرائم کے مرتکب ہوچکے ہیں تم کو بھی اللہ کا آخری پیغام پہنچایا جا رہا ہے تم چوکنے رہنا اور ایسے جرائم کا مرتکب نہ ہونا بلکہ پیشن گوئی کے طور پر یہ فرما دیا کہ تم پر بھی وہ وقت آئے گا کہ تمہارے علامء بھی اللہ کی کتاب قرآن کریم کو کھول کر لوگوں کے لئے بیان نہیں کریں گے بلکہ اس کے احکام کے چھپانے کے مرتکب ہوں گے اور اس کے عوض دنیا کی زندگی کے عارضی فائدے حاصل کریں گے اور اس طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے کہ قرآن کریم کو چھوڑ دیا گیا ہے اور دنیا داری کو حاصل کرنے کی دوڑ لگائی جا رہی ہے۔ اس جگہ اس جرم کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ایک کتاب کو کھول کر بیان نہ کرنا دوسرا اس کو چھپانا۔ کتاب کا کھول کر بیان کرنا کیا ہے ؟ کھول کر بیان کرنا یہ ہے کہ جو احکام اس عمل کے لئے ہیں ان کو کھول کر عمل کے لئے پیش کیا جائے اور لوگوں کو ان اعمال کی طرف دعوت دی جائے بلکہ ان کو ان اعمال پر مجبور کیا جائے اس لئے کہ وہ اس کو کتاب اللہ مان چکے ہیں اور خود اعمال کر کے ان لوگوں کو متاثر کیا جائے جو ابھی ایمان ہی نہیں لائے اور اس طرح لوگوں کی ان اعمال کی طرف دعوت دی جائے لیکن افسوس کہ آج ہم ان قصوں میں پڑگئے ہیں جن کا نام و نشان بھی قرآن کریم میں نہیں ہے اور شنیدہ قصوں کو قرآن کریم کی تفسیر قرار دے دیا ہے اور اس طرح قرآن کریم کے ان سادہ اور واضح اور روشن احکام کو اپنی دماغی عیاشی سے عجیب سے عجیب تر بنا دیا ہے اور پھر جب اس پر ایک مدت گزر گئی اور اس طرح کی یہ ساری باتیں یہود کی پیروی میں کتاب اللہ میں بطور تفسیر بھر دی گئیں تو آج وہ ہمارے لئے حجت اور دلیل بن گئیں کہ دیکھو فلاں تفسیر میں یہ لکھا ہے اور فلاں نے اس طرح کہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ تم اللہ کی کتاب کو بیان کر رہے ہو تو وہ اللہ کے فضل سے تمہارے پاس من بطور تفسیر بھر دیں گئیں تو آج وہ ہمارے لئے حجت اور دلیک بن گئیں کہ دیکھو فلاں تفسیر میں یہ لکھا ہے اور فلاں نے اس طرح کہا ہے۔ کوئی پوچھ کہ تم اللہ کی کتاب کو بیان کر رہے ہو تو وہ اللہ کے فضل سے تمہارے پاس مِن و عَن موجود ہے اور اللہ نے اس کے محفوظ رکھنے کی جو ذمہ داری لی تھی وہ اس طرح پوری کی ہے کہ اس میں ایک حرف بھی اوپر نیچے نہیں ہونے دیا تم اس کو بیان کرو ان قصوں کو کیوں بیان کرتے ہو جو اس کے اندر لا کر باہر سے رکھ دیئے گئے۔ تمہارا کام تو یہ چاہئے تھا کہ تم ان کو اٹھا کر قرآن کریم کی اصلی حقیقت لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ لیکن تم نے کیا کیا ؟ وہی جو اہل کتاب اور خصوصاً یہود تم سے پہلے کرچکے۔ پھر اگر انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ ظلم کیا تھا تو وہ اس پاداش میں ذلیل و خوار ہوئے اور تم جب اس جرم کے مرتکب ہوچکے تو تم کو اس کے نتیجہ سے دو چار نہیں ہونا تھا ؟ کیا اللہ ظالم ہے ؟ ایک گروہ کو تو ایک جرم کی سزا دے اور دورے کو اس جیسے جرم پر انعام و اکرام دے۔ عقل کے ناخن لو اور حق کو لوگوں کے بنائے ہوئے قصے کہانیوں میں مت چھپاؤ ۔ تعجب ہے کہ آج ہم نے لوگوں کو صرف یہ بتایا کہ اہل کتاب نے کتاب اللہ کی طرف پیٹھ کردی تھی تم اس کی طرف پیٹھ نہ کرنا بلکہ اس کو آنکھوں اور ماتھے پر رکھنا۔ اور پھر لوگوں کے سامنے قرآن کریم کو کھول کر اس پر ہاتھ پھیر پھیر کر منہ پر مارے اور چوم کر ماتھے سے لگایا ، اس لئے لوگوں نے آج یہ سمجھ لیا کہ جس شخص نے قرآن کریم کو کھول کر اس سے یہ کام کرلیا کہ ہاتھ پھیر کر منہ سے مل لئے اور الٹی سیدھی چار آیتیں بغیر سمجھے پڑھ لیں پھر اس کو چوم کر ماتھے پر بھی لگا لیا اور اس طرح کے سارے کام کے بعد اس کو غلاف میں بند کر کے اوپر کہیں طاق پر ٹکا دیا تو گویا وہ اس حکم سے بری الذمہ ہوگیا اور اب وہ دنیا کے کاموں میں مصروف ہو کر کم تولے ، کم ماپے ، جھوٹ بولے ، فریب مکاریاں کرے ، لوگوں کی چیزوں میں ملاوٹ کرے ، ملک کی لوگوں کی مشکلات میں چاہے جتنا اضافہ کرے آخر وہ ماشاء اللہ پکا مومن اور متقی ہے۔ اب اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ تو نے قرآن کریم کی طرف پیٹھ کردی ہے۔ اس طرح جو بھی کہے گا وہ جھوٹا ہوگا کہ اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اس اللہ کے بندے نے تو قرآن کریم کی طرف پیٹھ کردی ہے۔ اس طرح جو بھی کہے گا وہ جھوٹا ہوگا کہ اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اس اللہ کے بندے نے تو قرآن کریم کو اتنا اوپر لے جا رکھا ہے کہ کوئی مائی کا لال کی طرف پیٹھ کر ہی نہیں سکتا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ اللہ کا بندہ اتنا نیک اور اتنا مخیر ہے کہ ہر ماہ دو ماہ کے بعد کو ٹھی میں قرآن ختم کراتا ہے اور ہر جمعرات کو دیگ پکا کر تقسیم کرتا ہے۔ کتنی مسجدوں میں چندہ دیتا ہے اور علمائے کرام کی خدمت اس سارے کام سے سوا ہے۔ حج بھی کیا ہے اور ہر مہینے اس کی منتھلی بھی درس گاہ میں باقاعدہ پہنچ جاتی ہے یہ صدقہ جاریہ کے اتنے کام اس نے سنبھال رکھے ہیں۔ آخر وہ دنیا میں اس طرح کے کام نہیں کرے گا تو یہ سارے نیک کام کون سر انجام دے گا اور ان مساجد کا کیا بنے گا جن میں وہ چندہ دیتا ہے اوف ان علماء کرام کا کیا ہوگا جن کی خدمت وہ کر رہا ہے اور وہ درسگاہیں کیسے قائم رہیں گی جہاں اس کی منتھلی پہنچتی ہے۔ کوئی اندھا ہی ہوگا جو یہ سارے کام دیکھنے کے بعد بھی کہے گا کہ اس نے قرآن کریم کی طرف پیٹھ کردی ہے۔ اس کو کون سمجھائے کہ قرآن کریم کے احکامات پر عمل نہ کرنے سے قرآن کی طرف پیٹھ ہوجاتی ہے اور قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینکنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے اوامرو نواہی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی من مانی کی جائے جیسے چاہے کمائے اور جیسے چاہے خرچ کرے۔ قرآن کریم کی طرف پیٹھ نہ کرنے اور اس کے پیٹھ پیچھے نہ پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تاجر ہے تو تجارت ان احکامات کے مطابق کرے جو احکام قرآن نے تجارت کرنے کے دیے ہیں اور ان اشیاء کی تجارت کرے جن اشیاء کی تجارت کرنے کا حکم دیا ہے اور تجارت کے ان کاموں سے رک جائے جن سے قرآن کریم نے روکا ہے اور ان اشیاء کی تجارت سے بھی پیچھے ہٹ جائے جن کی تجارت سے منع کیا ہے۔ ان طریقوں کے مطابق عمل کرنے کے بعد اس کو جو نفع حاصل ہو اس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق نہیں کیا بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق خرچ کرے تاکہ وہ دین و دنیا میں سرفراز ہو۔ حق فروشی کے دام جہنم ہی میں پہنچائیں گے کیونکہ یہ راستہ جہنم ہی کو جاتا ہے : 342: حق حق ہے اور باطل باطل ۔ یہ دونوں کبھی ایک نہیں ہو سکتے اس لئے کہ جو حق ہے وہ باطل نہیں تب ہی وہ حق ہے اور جو باطل ہے وہ حق نہیں تب ہی وہ باطل ہے۔ مذہبی علماء کا کام تو یہ ہے کہ وہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر کے لوگوں تک پہنچائیں لیکن انہوں نے کیا کا۔ ؟ کہ حق اور باطل کو ملا کر رکھ دیا کبھی باطل کو حق کے نیچے چھپایا اور کبھی دونوں کو ملا جلا کر ایک کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا یہ سارا کچھ کیوں کیا ؟ اس لئے کہ اس سے ان کو خوب دام ملتے ہیں اور آخر وہ کون ہے جس کو دام نہیں چاہئیں ؟ غور کرو۔ فکر کرو کہ جب بھی کسی مذہبی راہنما نے دام کمائے تو اس طرح کمائے اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کو دھکے ملے۔ گا لیاں ملیں۔ استہزاء کا نشانہ بنا۔ کفر کے فتوے لگے اس کے سا اس کو کیا ملا ؟ فرمایا بالکل صحیح ہے کہ دام اس کو ملے جس نے حق و باطل ملایا یا باطل کو حق کے نیچے چھپایا۔ لیکن یہ دام اس کو کہاں لے گئے ؟ ارشاد ہوا کہ یہ دام برے تھے۔ اور بری چیز کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوا سکتا۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوا : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبہ : 9:34) ” مسلمانو ! یاد رکھو کہ علماء و مشائخ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال ناحق ، ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں۔ “ یعنی یہ ظالم اتنے دلیر ہیں کہ لوگوں کا مال بھی کھاتے ہیں اور ان کو سیدھی راہ سے بھی روکتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ یہ ستم یہ لوگ اس طرح ڈھاتے ہیں کہ فتوے بےچت ہیں۔ رشوتیں کھاتے ہیں۔ نذرانے لوٹتے ہیں۔ ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات ان سے خریدتے ہیں اور ان کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی ان کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنائے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار ان کو سمجھ لیں بلکہ مزید برآں اپنی انہی اغراض کی خاظر یہ حضرات خلق خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوت حق اصلاح کے لئے اٹھتی ہے تو سب سے پہلے اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے۔ فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِ ھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنٰی وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَ اِنْ یَّاْتِھِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْہ (الاعراف : 169:7) ” پھر ان لوگوں کے بعد ناخلفوں نے ان کی جگہ پائی اور کتاب اللہ کے وارث ہوئے۔ وہ دین فروشی کر کے اس دنیائے حقیر کی متاع بےتامل لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تو ہمیں معافی مل ہی جائے گی اور اگر انہیں کوئی متاع اس طرح فریق ثانی سے ہاتھ آجائے تو اسے بھی بےتامل لے لیں کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ہے کہ خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہیں مگر وہی جو سچ ہو اور کیا جو کچھ کتاب میں حکم دیا گیا ہے وہ پڑھ نہیں چکے ہیں ؟ “ یعنی ان کی حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ لوگ گناہ کرنے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہر حال ہماری مغفرت ہونا ضروری ہے اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد نہ وہ شرمندہ ہوتے نہ توبہ کرتے ہیں۔ بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بد نصیب لوگ ! اس کتاب کے وارث ہوئے جو ان کی دنیا کا امام بنانے والی تھی مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاع حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل و راستی کے علمبردار اور خیرو صلاح کے رہنما بنتے محض دنیا کے کتے بن کر رہ گئے۔ کیا دینی مصلحت کے لئے حکم الٰہی چھپایا جاسکتا ہے اور دبایا بھی : ہاں ! چلتے چلتے ایک بات مزید سن لیں کہ ہمارے علماء نے اس آیت کے تحت یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ” یہود نامسعود اپنی دنیوی اغراض و مقاصد کے تحت حق کو چھپاتے تھے اور لوگوں سے مال بھی وصول کرتے تھے۔ اور اگر کسی دینی اور شرعی مصلحت سے کوئی حکم عوام پر ظاہر نہ کیا جاے تو وہ اس میں داخل نہیں کیونکہ تعلیمات اسلامی سے یہ بات روشن ہے کہ بعض اوقات کسی حکم کے اظہار سے عوام کی غلط فہمی اور فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اس خطرہ کی بناء پر کوئی حکم پوشیدہ رکھا جائے تو مضائقہ نہیں۔ “ پھر اس خطرہ کے تحت ان کو جتنے احکام حق و باطل کے نیچے کسی نہ کسی زمانے میں دبائے گئے نظر آتے ہیں تو وہ ان کا نام لینا ” گناہ عظیم “ جانتے ہیں کہ اس سے فتنہ کھڑا ہوگا لہٰذا حق کو اس طرح چھپا رہنے دینا دینی مصلحت ہے اور پھر جب بھی کوئی ایسے حق کو ان باطل کے تہہ در تہہ پردوں کے نیچے سے اٹھا باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ کلہاڑیاں ، لاٹھیاں ، ڈنڈے اور رسیاں لے کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ہیں اور شور کرتے ہیں کہ مارو مارو اس کم بخت نے ایک فتنہ کھڑا کردیا ہے۔ ان کا یہ شور سن کر عوام اٹھتے ہیں اور جنت حاصل کرنے کے نشہ میں وہ ان ہی کی کہلاڑیوں ، ڈنڈون اور لاوٹھیوں سے اس بچارے کو قتل کر کے انہی کی رسیوں سے باندھ کر جب تک کسی اندھے کنوئیں میں نہیں ڈال دیتے یہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ اس طرح کے دینی مسئلے انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں گھوٹ گھوٹ کر پئے تھے۔ کیونکہ بہت سی دینی درسگاہوں میں صر یہی کام ہوتا ہے اور اس طرح یہ گھوٹ گھوٹ کر پینے والے اب گرینڈ کر کر کے آگے آنے والوں کو پلاتے ہیں اور اگر کسی قسمت کے مارے نے یہ رگڑا نہ لگایا ہو تو ان کا تکیہ کلام ہی یہ ہوتا ہے کہ ” اجی یہ تو کہیں پڑھا نہیں نہ اس کے پاس کوئی سند ہے۔ “ یہ کیا جانے کہ دو اور دو پانچ کیسے ہوتے ہیں ؟ اپنے قریب کے زمانہ کے ان پڑھوں کی فہرست کے چند نام بھی سن لیں تاکہ یہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ شبلی نعمانی (رح) ، الطاف حسین حالی (رح) ، ڈاکٹر محمد اقبال (رح) ، عنایت اللہ مشرقی (رح) ، ثناء اللہ امر تسری (رح) ، عبدلاماجد دریا بادی (رح) ، عبدالحی لکھنوی (رح) ، محمد علی لاہوری (رح) ، ابو الکلام آزاد (رح) ، امین احسن اصلاحی (رح) ، حافظ عنایت اللہ اثری (رح) ، ابولاعلیٰ مودودی (رح) ، اور سر سید مرحوم و مغفور کو سارے ان پڑھوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس اوپر کے ان پڑھوں کا یا تو ان کو علم نہیں یا جان بوجھ کر کسی دینی مصلحت کے لئے چھپائے ہوئے ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت (البقرہ : 101:2) ، (102:2) ، (2:159) اور (2:174) کا مطالعہ کریں۔
Top