بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
1 تا 3۔ ان آیتوں میں اللہ کے رسول اور امت کے لوگوں کو تقویٰ کا کافروں اور رمنا فقوں کے مشورہ کے نہ ماننے کا اور ہر کام میں اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر آدمی نافرمانی کو چھوڑدے اور ثواب کی امید پر اس کی عبادت کرے پھر فرمایا اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ اس کے حکموں کو مانو اور اس کی تابعداری کرو اور ہر کام میں اللہ ہی پر بھروسہ کرو کہ وہی بندوں کے سب کام بنانے والا انجام کار سے خبردار صاحب حکمت ہے ‘ مشرکین مکہ ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد مدینہ کے منافق جو بات کہتے تھے وہ اسلام کے برخلاف ہوتی تھی مثلا سورة الانعام میں گزر چکا ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی اور مدینہ کے منافقوں کی بات نہ ماننے کی جو نصیحت فرمائی ہے اس کی تفسیر ان قصص سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے اللہ پر بھروسہ رکھنے کی نصیحت جو ان آیتوں میں ہے اس پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا دنیوں نتیجہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عباس یہ تک کی خلافت ہے اور ایسے لوگوں کا آخرت کا نتیجہ صحیح بخاری کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت 1 ؎ میں ہے (1 ؎ مشکوۃ باب التوکل والصبر فصل اول) کہ اس طرح کے ستر ہزار آدمیوں کی جماعت قیامت کے دن بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جاویں گے۔ “
Top