بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
سورة الاحزاب آیت نمبر : 3 ۔ 1 یعنی اے وہ ہستی ! جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور اپنی وحی کے لیے چن لیا اور تمام مخلوق پر فضیلت بخشی ‘ اپنے اوپر اپنے رب کی اس نعمت پر تقویٰ کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیجیے جس کے دوسروں کی نسبت آپ زیادہ مستحق ہیں اور اسے اختیار کرنا دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ فرض ہے۔ اس کے اوامرو نواہی پر عمل کیجیے ‘ اس کے پیغامات کی تبلیغ کیجیے ‘ اس کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچایے اور تمام تمام مخلوق کی خیر خواہی کیجیے کوئی آپ کو آپ کے مقصد سے ہٹاسکے نہ آپ کی راہ کو کھوٹی کرسکے اور کسی کافر کی اطاعت نہ کیجیے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے عداوت ظاہر کی ہو اور نہ کسی منافق کی اطاعت کیجیے کیونکہ اس نے تکذیب اور کفر کو اپنے باطن میں چھپا رکھا ہے اور ان کے برعکس تصدیق و ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ بس یہی لوگ ہیں جو حقیقی دشمن ہیں ‘ لہٰذا بعض معاملات میں جو تقویٰ کے متناقض ہیں ان کی بات نہ مانیے اور ان کی خواہشات نفس کی پیروی نہ کیجیے ورنہ وہ آپ کو راہ صواب سے ہٹا دیں گے۔ (و) ” اور “ لیکن (اتبع ما یوحی الیک من ربک) ” جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کی جاتی ہے اسی کی اتباع کیجیے۔ “ کیونکہ یہی ہدایت اور رحمت ہے اس کی پیروی کرکے اپنے رب کے ثواب کی امید رکھیے کیونکہ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ‘ وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔ اگر آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ آپ نے ان کی گمراہ کن خواہشات نفس کی پیروی نہ کی تو آپ کو ان سے کوئی نقصان پہنچ جائے گا یا مخلوق کی ہدایت میں نقص واقع ہوجائے گا تو اس خیال کو اپنے دل سے نکال پھینکیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ ان کے شر سے سلامتی اور اقامت دین میں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ اپنے رب پر اس شخص کی مانند اعتماد کیجیے جو اپنی ذات کے لیے کسی نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا ‘ جو موت پر اختیار رکھتا ہے نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد زندہ کرسکتا ہے ‘ لہٰذا اس امر کے حصول کے بارے میں ہرحال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ (وکفی باللہ وکیلا) ” اور اللہ کافی کارساز ہے۔ “ اس لیے تمام معاملات کو اسی کے سپرد کردیجیے وہ ان کا اس طریقے سے انتظام کرے گا جو بندے کے لیے سب سے زیادہ درست ہوگا ‘ پھر وہ ان مصالح کو اپنے بندوں تک پہنچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے جبکہ بندہ ان پر قادر نہیں۔ وہ اپنے بندے پر اس سے بھی کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ خود اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے یا اس پر اس کے والدین رحم کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے بندے پر ہر ایک سے زیادہ رحمت والا ہے خصوصاً اپنے خاص بندوں پر ‘ جن پر ہمیشہ سے اس کی ربوبیت اور احسان کا فیضان جاری ہے اور جن کو اپنی ظاہری اور باطنی برکتوں سے سرفراز کیا ہے ‘ خاص طور پر اس نے حکم دیا ہے کہ تمام امور اس کے سپرد کردیئے جائیں ‘ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کی تدبیر کرے گا۔ تب آپ نہ پوچھیں کہ ہر معاملہ کیسے آسان ہوگا ‘ مشکلات کیسے دور ہوں گی ‘ مصائب کیسے ختم ہوں گے ‘ تکلیفیں کیسے زائل ہوں گی ‘ ضرورتیں اور حاجتیں کیسے پوری ہوں گی ‘ برکتیں کیسے نازل ہوں گی ‘ سزائیں کیسے ختم ہوں گی اور شر کیسے اٹھا لیا جائے گا۔۔۔ یہاں آپ کمزور بندے کو دیکھیں گے جس نے اپنا تمام معاملہ اپنے آقا کے سپرد کردیا ‘ اس کے آقا نے اس کے معاملات کا اس طرح انتظام کیا کہ لوگوں کی ایک جماعت بھی اس کا انتظام نہ کرسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے معاملات اس کے لیے نہایت آسان کردیئے جو بڑے بڑے طاقتور لوگوں کے لیے بھی نہایت مشکل تھے۔ وباللہ المستعان۔
Top