بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی1 اللہ کا خوف رکھنا اور کافروں اور منافقوں کی (خلاف شرع بات) نہ سننا، بیشک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے ۔
(ف 1) شان نزول : ابوسفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابوالاسود سلمی جنگ احد کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے اور منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی سلول کے یہاں مقیم ہوئے نبی ﷺ سے گفتگو کے لیے امان حاصل کرکے انہوں نے یہ کہا کہ آپ لات وعزی منات وغیرہ بوں کو جنہیں مشرکین اپنا معبود سمجھتے ہیں کچھ نہ فرمائیے اور یہ فرمادیجئے کہ ان کی شفاعت ان کے پجاریوں کے لیے ہے اور ہم لوگ آپ کو، آپ کے رب کو کچھ نہ کہیں گے ۔ تو نبی ﷺ کو ان کی گفتگو ناگوار ہوئی اور مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو نبی نے قتل کی اجازت نہ دی ، اور فرمایا کہ میں انہیں امان دے چکا ہوں اس لیے قتل نہ کرو، مدینہ شریف سے نکال دو ، چناچہ حضرت عمر نے نکال دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں خطاب تو نبی ﷺ کے ساتھ ہے اور مقصود ہے آپ کی امت سے فرمانا کہ جب نبی نے امان دی تو تم اس کے پابند رہو، اور نقض عہد کا ارادہ نہ کرو، اور کفار اور منافقین کی خلاف شرع بات نہ مانو۔
Top