بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی، اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پر کان نہ دھرو، بیشک اللہ علیم و حکیم ہے۔
1۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یایھا النبی اتق اللہ ولا تطع الکفرین والمنفقین ان اللہ اکان علیما حکیما (1) آنحضرت ﷺ کو یہاں ’ یایھا النبی ‘ سے جو خطاب فرمایا ہے یہ محض تعظیم و تکریم کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ یہ لفظ آپ کے فریضہ منصبی کی یاددہانی کے لئے یہاں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کے نبی و رسول ہیں اس وجہ سے آپ کو صرف اپنے رب کی پروا ہونی چاہے۔ آپ صرف اللہ سے ڈریں، کافروں اور منافقوں کی مخالفتوں سے بالکل بےپروا ہو کر لوگوں کو اللہ کی پہنچائیں۔ اسی طرح کا خطاب سورة مائدہ میں گزر چکا ہے۔ یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک (المائدۃ : 67) (اے رسول، تم اچھی طرح لوگوں کو وہ خیر پہنچا دو جو تم پر تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے)۔ ’ ولا تطع الکفرینن والمنفقین۔ آنحضرت ﷺ کو یہ تنبیہ و تاکید اس لئے نہیں فرمائی گئی کہ خدا نخواستہ اس بات کا کوئی اندیشہ تھا کہ آپ کفار ومنافقین کی باتوں سے متاثر یا مرعوب ہوجائیں گے بلکہ یہ آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے مخالفی کو تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ اشرار کتنا ہی زور لگائین اور کتنے ہی فتنے اٹھائیں لیکن تم ان کی باتوں پر ذرا کان نہ دھرنا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ آگے بعض ایسی باتوں کا ذکر آرہا ہے جن کو کفارہ و منافقین نے آپ کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ یہاں کفار ومنافقین کا ایک ساتھ ذکر اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ دونوں اصلاً ایک ہی چٹے کے بٹے ہیں۔ اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہیں۔ فرق ہے تو یہ ہے کہ ایک کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ دوسرا اسلام کا کلمہ پڑھتے ہوئے، مسلمانوں کے اندر گھس کر، اسلام کی بیخ کنی کی کوشش کرتا ہے۔ اس وجہ سے انجام کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ ’ ان اللہ کان علیما حکیما۔ یہ اس بات کی دلیل ارشاد ہوئی ہے کہ کیوں پیغمبر ﷺ کو اپنے رب کے سوا سب سے بےخوف و بےپروا ہو کر صرف اس بات کی تبلیغ و تعمیل کرنی چاہیے جس کا اللہ نے حکم دیا یہ۔ فرمایا کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔ اس وجہ سے اس نے جس بات کا حکم دیا ہے وہی بات صحیح علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس کے خلاف لوگ جو بکواستیں کر رہے ہیں ان کی خرافات لائقِ اعتناء نہیں ہیں۔ آگے آیت 39 اور آیت 48 سے اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔
Top