Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Haaqqa : 19
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ١ۙ فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْۚ
فَاَمَّا : تو رہا مَنْ اُوْتِيَ : وہ جو دیا گیا كِتٰبَهٗ : کتاب اپنی۔ نامہ اعمال بِيَمِيْنِهٖ : اپنے دائیں ہاتھ میں فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا هَآؤُمُ : لو اقْرَءُوْا : پڑھو كِتٰبِيَهْ : میری کتاب
تو جس کا (اعمال) نامہ اسکے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں) سے کہے گا کہ لیجئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیے
19۔ 24۔ ابو داؤود 1 ؎ کی حضرت عائشہ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حشر کے دن تین موقعوں پر لوگوں کو بڑی سخت پریشانی ہوگی۔ ان تین موقعوں پر ایک موقع تو یہی نامہ اعمال کے تقسیم ہونے کا ہے اس وقت ہر ایک شخص کے دل میں یہ خوف ہوگا کہ دیکھئے اس کا اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں آتا ہے یا الٹے ہاتھ میں۔ باقی دو موقعے اعمال کے تولے جانے اور پل صراط سے گزرنے کے وقت کے ہیں۔ جن لوگوں کے نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیئے جائیں گے ان میں بعض تو ایسے ہوں گے جن کی نیکیاں خود ہی زیادہ اور بدیاں کم ہوں گی اور بعض ایسے ہوں گے کہ جن کی بدیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور بعض ایسے ہوں گے کہ جن کے نامہ اعمال دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان سے اقرار فرمائے گا کہ جس طرح تمہارے گناہ میں نے دنیا میں مخلوق پر ظاہر نہیں کئے اور تم کو رسوا نہیں کیا اسی طرح آج بھی میں تمہیں رسوا نہ کروں گا۔ غرض سب سیدھے ہاتھ والے اپنے نامہ اعمال خوش ہو کر پڑھیں گے اور جو کوئی رشتہ دار کنبہ والا یا جان پہچان والا اس وقت نظر آئے گا۔ خوشی کیمارے اس سے بھی کہیں گے لو ہمارا نامہ اعمال پڑھ کر دیکھو اور یہ بھی کہیں گے کہ ہم کو یقین تھا کہ ایک دن ہمارا اعمال نامہ ہمارے ہاتھ میں آئے گا اور نیک و بد کا حساب ہوگا۔ قرآن شریف میں یقین کی جگہ ظن کا لفظ عقبیٰ کی باتوں میں اس لئے بولا گیا ہے کہ پورا یقین ان باتوں کا مرنے کے بعد ہوگا۔ دانیہ کا یہ مطلب ہے کہ جنت کے میوے لیٹے بیٹھے سب طرح جنتی توڑ سکیں گے۔ ھنیئا کا یہ مطلب ہے کہ جو کھایا سب ہضم۔ ترجمہ میں ” کھاؤ اور پیو رچ سے “ کا بھی یہی مطلب ہے۔ خالیہ کا مطلب دنیا کا زمانہ۔ صحیح 2 ؎ مسلم کی ابوذر ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ ایک شخص کے نامہ اعمال کا ذکر کے آنحضرت ﷺ بہت ہی ہنسا کرتے تھے۔ حاصل اس حدیث کا یہی ہے کہ ایک شخص پہلے اس کے صغیرہ گناہوں کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنی رحمت سے تیرے ان گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔ یہ سن کر وہ شخص کہے گا یا اللہ میں نے تو دنیا میں بڑے بڑے اور کبیرہ گناہ بھی کئے تھے وہ میرے گناہ کہاں ہیں اس شخص کی اس بات پر آنحضرت ﷺ کو بہت ہنسی آیا کرتی تھی حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا میں خالص دل سے کوئی عمل بھی اگر ایسا ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند آگیا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنی رحمت سے ہر طرح اپنے بندوں کی نجات کی صورت نکال دے گا۔ چناچہ ترمذی 1 ؎ اور ابن ماجہ کی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ ایک شخص کا فقط کلمہ کے ثواب کا نامہ اعمال اس قدر بھاری ہوجائے گا کہ جس کے بوجھ کے آگے ایک کم سو بدی کے نامہ اعمال بالکل ہلکے ہوجائیں گے۔ باقی حال مقرب لوگوں کا اور سیدھے ہاتھ والوں کا سورة واقعہ میں گزر چکا ہے۔ (1 ؎ ابو داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی ذکر المیزان ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ واجراج الموحدین من النار ص 106 ج 1۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ ص 103 ج 2۔ )
Top