Tafheem-ul-Quran - Al-Haaqqa : 19
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ١ۙ فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْۚ
فَاَمَّا : تو رہا مَنْ اُوْتِيَ : وہ جو دیا گیا كِتٰبَهٗ : کتاب اپنی۔ نامہ اعمال بِيَمِيْنِهٖ : اپنے دائیں ہاتھ میں فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا هَآؤُمُ : لو اقْرَءُوْا : پڑھو كِتٰبِيَهْ : میری کتاب
اُس وقت جس کا نامہٴ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا 12 وہ کہے گا”لو دیکھو، پڑھو میرا نامہٴ اعمال، 13
سورة الْحَآقَّة 12 سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اس کا حساب بےباق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدان حشر میں حاضری تک اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہوگا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہوچکا ہوگا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہوجاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بد بخت آدمی کی حیثیت سے۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور (تفصیلات کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الانفال، آیت 50۔ النحل، آیات 28 و 32، مع حاشیہ 26۔ بنی اسرائیل، آیت 97۔ جلد سوم، طٰہٰ آیات 102، 103، 124 تا 126، مع حواشی 79، 80، 107۔ الانبیاء، آیت 103، مع حاشیہ 98۔ الفرقان، آیت 24، مع حاشیہ 38۔ النمل، آیت 89، مع حاشیہ 109۔ جلد چہارم، سبا، آیت 51، مع حاشیہ 72۔ یٰسین، آیات 26، 27، مع حواشی 22۔ 23۔ المومن، آیات 45، 46، مع حاشیہ 63، جلد پنجم، محمد، آیت 27 مع حاشیہ 37۔ ق، آیات 19 تا 23۔ مع حواشی 22، 23، 25۔) سورة الْحَآقَّة 13 یعنی نامہ اعمال ملتے ہی وہ خوش ہوجائے گا اور اپنے ساتھیوں کو دکھائے گا۔ سورة انشقاق، آیت 9 میں بیان ہوا ہے کہ " وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹے گا "۔
Top