Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 128
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِقَوْمِهِ : اپنی قوم سے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِاللّٰهِ : اللہ سے وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک الْاَرْضَ : زمین لِلّٰهِ : اللہ کی يُوْرِثُهَا : وہ اسکا وارث بناتا ہے مَنْ : جس يَّشَآءُ : چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَ : اور الْعَاقِبَةُ : انجام کار لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد ما نگو اور ثابت قدم رہو زمین تو خدا کی ہے۔ (اور) وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اسکا مالک بناتا ہے۔ اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے۔
(127 ۔ 129) ۔ فرعون چھ سو برس دنیا میں زندہ رہا اور چار سو برس تک بادشاہی کی اس عرصہ میں کوئی تکلیف اس کو نہیں ہوئی سر میں درد تک نہ ہوا اگر ایک روز بھی بھوکا رہتا یا کوئی تکلیف اٹھاتا تو خدائی کا دعوی بھول جاتا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے یہ حکم دیا رکھا تھا کہ جو بچہ پیدا ہو اگر لڑکا ہو تو مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے۔ سورة قصص میں جو ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آویگا اس کے موافق جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے اور فرعون ہی کے گھر میں پرورش پاکر سیانے ہوگئے تو اس نے وہ حکم موقوف کردیا اب جو حضرت موسیٰ نے رسالت کا دعوی کیا اور جادو گروں پر غالب ہو کر خدا کا پیغام لوگوں کو پہنچانے لگے تو فرعون کے وزیروں اسیروں نے فرعون کے پاس جاکر بطور مشورہ یہ بات کہی کہ موسیٰ ( علیہ السلام) اور اس کے پیروی کرنے والوں کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہے ورنہ یہ لوگ آپ کی رعیت کو بہکا بہکا کر آپکی طرف سے پھیر دیں گے اور خدا کی طرف متوجہ کریں گے اور آپ کو اور آپ کے دین وآئین کو اور معبودوں کو چھوڑ دیں گے تو پھر فرعون نے جل کر وہی اگلا حکم جاری کرنے کو کہا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے ہمارے سامنے اس لوگوں کی کیا ہستی ہے ہم سب سے زبردست ہیں جب بنی اسرائیل کو اس بات کو خبر پہنچی کہ وہ ملعون پھر ایسا ارادہ کرتا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی شکایت کی آپ نے یہ جواب دیا کہ خدا سے مدد چاہو اور صبر کرو آخر میں خدا سے ڈرنے والوں کو بھلائی اور بہتری ہوگی گویا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرعون پر فتح پانے کا وعدہ کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ ہماری تو ہمیشہ یہی حالت رہی کہ جب آپ نہیں تھے جب بھی اس مصیبت میں گرفتار تھے کہ ہمارے لڑکے قتل کئے جاتے تھے اور اب بھی وہی تکلیف ہے یہ کم بخت پھر وہی حکم جاری کر رہا ہے کہ ہمارے لڑکے قتل کئے جاویں اور لڑکیاں چھوڑ دی جاویں حضرت موسیٰ نے فرمایا گھبراؤ نہیں بہت جلد خدا تمہارے دشمنوں کو غارت کرے گا اور یہ کافر مع اپنے ہوا خواہوں کے ہلاک ہوگا اور تم لوگ دنیا میں سلطنت کی باگ ہاتھ میں لوگے پھر اللہ تعالیٰ ہیں آزمائے گا کہ تم کیا عمل کرتے ہو چناچہ یہ بات ظہور میں بھی آئی کہ فرعون مع اپنے لشکر کے دریا میں غرق ہوگیا اور داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں سارے ملک مصر پر ہی اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور پھر بنی اسرائیل نے وہ برے عمل کئے جن کا ذکر جگہ جگہ قرآن میں ہے صحیح بخاری ومسلم میں عمرو ؓ بن عوف انصاری کی ایک بڑی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو اپنی امت کی تنگ دستی کی حالت کا کچھ خوف نہیں بلکہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جب ان کو پچھلی امتوں کی طرح فارغ البالی ہوجاویگی تو ان میں طرح طرح کے نسیان پیدا ہوجاویں گے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ ان آیتوں اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب پیدا ہوا کہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بنی اسرائیل کی فارغ البالی کے زمانہ کے فساد کا خوف تھا وہی خوف حضرت محمد ﷺ کو اپنی امت کی فارغ البالی کے زمانہ کا تھا اور اسی خوف کا ظہور جس طرح بنی اسرائیل میں ہوا اسی طرح امت محمد یہ میں ہوا فرعون نے اپنی صورت کے بت بنا کر لوگوں کو پوجا کے لئے دے رکھے تھے اور اپنے آپ کو بڑا خدا اور ان مورتوں کو چھوٹے خدا کہتا تھا۔
Top