Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 128
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِقَوْمِهِ : اپنی قوم سے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِاللّٰهِ : اللہ سے وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک الْاَرْضَ : زمین لِلّٰهِ : اللہ کی يُوْرِثُهَا : وہ اسکا وارث بناتا ہے مَنْ : جس يَّشَآءُ : چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَ : اور الْعَاقِبَةُ : انجام کار لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد چاہو اور ثابت قدم رہو۔ زمین اللہ کی ہے وہ جس کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اس کو اس کا وارث بناتا ہے اور انجام کار کی کامیابی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا۔ تفسیر سورة بقرہ کی فصل 32 میں ہم اقامتِ دین کی جد و جہد میں صبر اور نماز کی اہمیت پر بحث کرچکے ہیں۔ درحقیقت اس جہاد میں یہی دو چیزیں وسیلہ ظفر ہیں۔ قرآن میں مشکلات راہ کے مقابلہ کے لیے ہر جگہ انہی دو ہتھیاروں سے مدد حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں اگرچہ بظاہر لفظ اللہ وارد ہوا ہے لیکن اس سے مراد نماز ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے استعانت کا ذریعہ نماز ہی ہے۔ فعون نے اس شکست سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو دبانے اور ان کی نسل کو تباہ کرنے کا جو عزم ظاہر کیا اس سے قدرتی طور پر بنی اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ ان کی اس پریشان کو دور کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے ان کو نماز اور صبر کی تلقین کی۔ فتنوں اور آزمائشوں میں استقامت بڑا کٹھنکام ہے۔ یہ کام اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے کہ وما صبرک الا باللہ (اور تمہیں صبر حاصل نہیں ہوسکتا مگر اللہ ہی کی مدد سے) اللہ کی یہ مدد حاصل کرنے کا واسطہ نماز ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اس نماز سے مراد صرف عام نماز نہیں ہے بلکہ وہ خاص نماز بھی ہے جس کی تاکید آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو مکی زندگے کے ابتدائی پر محن دور میں کی گئی تھی۔ اسی چیز کی تاکید حضرت موسیٰ اور ہارون کو بھی کی گئی۔ سورة یونس کی آیت 87 کے تحت انشاء اللہ ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔ rnۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۔ یہ فرون کے اس غرور کی جو، انا فوقہم قاھرون، کے الفاط سے ظاہر ہورہا ہے، تردید ہے، مطلب یہ ہے کہ اپنے منہ سے اپنے متعلق جو چاہے قاہر و مقتدر ہونے کا دعوی کرتا رہے لیکن زمین کا اصل مالک اللہ ہے، وہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس وارث بناتا ہے اور عاقبت کار کی کامیابی بہرحال خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے۔ رسولوں سے متعلق اس سنت الہی کی وضاحت ہم ایک سے زیادہ مقامات میں کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو لازماً ان کے دشمنوں پر غلبہ عطا فرماتا ہے۔ عام اس سے کہ یہ غلبہ ان کی زندگی ہی میں حاصل ہو یا ان کی زندگی کے بعد ان کے پیرو وں کو حاصل ہو اور قطع نظر اس سے کہ وہ اسی سرزمین پر قابض ہوں جس میں انہوں نے اپنی دعوت بلند کی یا اللہ تعالیٰ ان کو اس علاقے سے ہجرت کا حکم دے اور ان کی برو مندی کے لیے زمین کے کسی اور خطے کا انتخاب فرمائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ ؑ کو دشمن پر غلبہ تو ان کی زندگی ہی میں بلکہ مذکورہ بالا واقعات کے پیش آنے کے بہت تھوڑے عرصے کے بعد ہی حاصل ہوگیا لیکن ان کی امت کو حکومت عطا ہوئی فلسطین کی سرزمین کی اور کام تکمیل کو پہنچا ان کے وفان کے بعد۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مصر میں بھی اس عذاب کے بعد، جو فرعون اور اس کی قوم پر آیا، وہ ارسٹوکریشی بالکل تباہ ہوگئی جو مصر پر قابض تھی اور ان کی جگہ دوسرے لوگ قابض ہوگئے جو خاندان اور روایات میں بالکل مختلف تھے اور ان کے ساتھ سابق حکمرانوں کی سیاسی رقابتیں بھی تھیں اور ان کی طرف سے یہ اندیشہ بھی فرعونیوں کو تھا کہ یہ بنی اسرائیل کے ساتھ ساز باز کر کے کہیں ملک کے حکمران نہ بن بیٹھیں۔ یہ مسئلہ چونکہ تاریخ کا ہے ور براہ راست ہم سے متعلق نہیں ہے اس وجہ سے ہم صرف اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔ تفصیل کے طالب اس عہد کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔
Top