Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 128
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِقَوْمِهِ : اپنی قوم سے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِاللّٰهِ : اللہ سے وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک الْاَرْضَ : زمین لِلّٰهِ : اللہ کی يُوْرِثُهَا : وہ اسکا وارث بناتا ہے مَنْ : جس يَّشَآءُ : چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَ : اور الْعَاقِبَةُ : انجام کار لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا " اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے ، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں "
اب پھر پردہ گرتا ہے ، فرعون اور اس کے حوالی و موالی کو سازش اور دھمکیوں اور سخت تندی کی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب اس قصے کا ایک دوسرا خاص منظر سامنے آتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے تشدد کی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ اس منظر میں حضرت موسیٰ اپنی قوم میں نظر آتے ہیں ، آپ اپنی قوم کے ساتھ ایک نبی کے قلب کے ساتھ ایک نبی کی زبان میں بات کررہے ہیں ، آپ کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنے رب کی پوری پوری معرفت حاصل ہے۔ آپ رب تعالیٰ کی سنت جاریہ کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں ، آپ کو علم ہے کہ اللہ کے منصوبھے اور اس کی تقدیر کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ آپ ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ آپ یہ مشکلات انگیز کریں۔ صبر سے کام لیں اور اللہ سے ان مشکلات کی برداشت کے لیے مدد اور معاونت طلب کریں۔ آپ انہیں اس کائنات کی اصل صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ زمین اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری انجام ان لوگوں کا اچھا ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اور جب وہ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ اے موسیٰ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم یہ مصائب تھے اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہم ان مشکلات سے دو چار ہیں اور یہ مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں تو آپ ان کو ان الفاظ میں تسلی دیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور اس کرہ ارض کی خلافت تمہیں دے دے لیکن پھر تمہاری بھی آزمائش کا دور شروع ہوگا۔ قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ۔ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا " اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے ، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں " اس کی قوم کے لوگوں نے کہا " تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں " اس نے جواب دیا " قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے ، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو "۔ نبی کی بصیرت دیکھ رہی ہے کہ اللہ کی قوتیں اس کائنات میں کس طرح متصرف ہیں۔ اور اللہ کی حقیقت اور قوت کس قدر عظیم ہے۔ اور اس کائنات میں سنت الہیہ کس طرح جاری وساری ہے اور اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے والے لوگوں کے لیے اس میں کیا کیا مراعات ہیں ؟ جو لوگ رب العالمین کی طرف دعوت دیتے ہیں ، ان کے لیے جائے پناہ صرف ایک ہے اور وہ مامون محفوظ اور قابل بھروسہ جائے پناہ ہے۔ ان کا صرف ایک ہی ولی اور آقا ہوتا ہے جو بڑی قوت والا اور ناقابل شکست ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کو اس وقت تک صبر اور مصابرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک ان کا آقا ان کے لیے فتح و کامرانی کے احکام صادر نہیں کرتا ، انہیں اس معاملے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انسان کو معلوم نہیں ہے کہ غیب میں اس کے لیے کیا کیا پوشیدہ ہے اور اس کی بھلائی کس چیز میں ہے ؟ یہ زمین اللہ کی ہے۔ فرعون اور اس کی قوم یہاں مسافرین ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ یہاں کس قوم کو لاتا ہے اور اسے اس زمین کا وارث بناتا ہے۔ یہ کام اللہ اپنے سنن جاریہ کے مطابق کرتا ہے ، لہذا جو لوگ رب العالمین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اس بات کو خاطر میں نہیں لاتے کہ ان کا جس طاغوتی طاقت سے مقابلہ ہے ، وہ اس سرزمین پر بظاہر بڑی مستحکم نظر آتی ہے اور اس کی بنیادوں میں کوئی تزلزل نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس زمین کا مالک اللہ ہے اور وہ کسی مناسب وقت میں کسی سے اقتدار چھین کر کسی دوسرے بندے کے حوالے کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخری اچھا انجام بہرحال متقین کا ہوتا ہے ، چاہے طویل عرصے کے بعد یہ انجام ظاہر ہو یا جلدی ظاہر ہو۔ لہذا رب العالمین کی طرف دعوت دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں سے اپنے انجام کے بارے میں ہر خلجان کو نکال دیں اور یہ گمان نہ کریں کہ آج جن اہل باطل کی زمین پر چلت پھرت ہے وہ ہمیشہ اسی طرح رہیں گے۔ یہ تو نبی کی چشم بصیرت تھی جو اس کائنات میں ہونے والے واقعات کو دور تک دیکھ رہی تھی لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے۔
Top