Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے نبی ﷺ ! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔
64۔ طبرانی بزار تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر ابوالشیخ میں عکرمہ سعید بن جبیر سعید بن مسیب کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ انتالیس مسلمان پہلے سے تھے جب حضرت عمر ؓ اسلام لائے اور چالیس مسلمان پورے ہوگئے تو حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لیکن حافظ عما دالدین ابن کثیر نے اس شان نزول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور حضرت عمر ؓ کا اسلام ہجرت سے پہلے ہے پھر یہ آیت حضرت عمر ؓ کے اسلام کے وقت کیونکر نازل ہوسکتی ہے جواب اس اعتراض کا اور مفسیرین نے یہ دیا ہے کہ اس آیت کو مدنی فقط اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ سورة مدنی ہے لیکن جب یہ کہا جائے کہ تمام سورة مدنی ہے اور اس آیت مکی کو آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے موافق مدنی سورة میں داخل کیا گیا ہے تو پھر کچھ اعتراض نہیں ہے کیونکہ اکثر سورتوں میں ایسا ہوا ہے کہ ساری سورة مکی ہے اور کچھ آیتیں اس میں مدنی ہیں یا ساری سورت مدنی ہے اور کچھ آیتیں اس میں مکی ہیں بعضے مفسرین نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ اس سبب سے اس شان نزول کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس شان نزول کی بعضی روایتیں مثلا تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت نہایت صحیح ہے پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ صحیح روایت کو محض عقلی اعتراض سے نہ تسلیم کیا جائے اور جب روایت کو صحیح مانا جائے گا تو معنے اس روایت کے وہی ہوں گے جو اعتراض کے جواب میں بیان کئے گئے ہیں کہ مدنی سورة میں یہ مکی آیت داخل کی گئی ہے اور اس میں ذرا شک نہیں ہے کہ جواب میں جو حالت قرآن شریف کی آیتوں کی بیان کی گئی وہ ایک موجودہ حالت ہے اس واسطے ابن العربی وغیرہ مفسرین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ سورة انفال میں یہ ایک آیت مکی ہے امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اس شان نزول کے اختلاف کا یوں فیصلہ کیا ہے کہ آیت خواہ مکی ہو یا مدنی لیکن آیت میں مومنین جمع کا صیغہ ہے اس لئے آیت کا مضمون عام ہے اسی واسطے آیت کو بدر کی لڑائی کی آیتوں میں رکھا گیا ہے تاکہ حاصل مطلب آیت کا یہ ٹھہر جاوے کہ اس لڑائی میں جس طرح کچھ اوپر تین سو مسلمانوں کو غیبی مدد سے ہزار دشمنوں پر فتح ہوئی اسی طرح آئندہ بھی مسلمانوں کی جس قدر جماعت لڑائی میں اللہ کے رسول کے ساتھ ہوگی وہ اللہ کی مدد سے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے اللہ کے رسول کو کافی ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے جابر ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دشمن کی فوج ایک مہینے کے راستہ پر ہو تو اتنے فاصلہ سے بھی میرا رعب دشمن کی فوج کے دلوں پر چھا جاتا ہے اس حدیث سے امام بخاری کے فیصلہ کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں جس رعب کا ذکر ہے وہ عام مسلمانوں کے اس لشکر اسلام کے حق میں ہے جو لشکر کسی لڑائی میں اللہ کے رسول کے ساتھ ہو یہ تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا حال ہوا صحیح بخاری میں ابوسعید ؓ خدری کی ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آیندہ ایک زمانہ ایسا آویگا کہ جس لشکر اسلام میں صحابیوں تابعیوں یا تبع تابعیوں میں سے کوئی ہوگا تو اس لشکر اسلام کو بھی اللہ تعالیٰ فتح نصیب کریگا آنحضرت ﷺ کے دیکھنے والوں کو صحابی کہتے ہیں اور صحابی کے دیکھنے والے کو تابعی اور تابعی کے دیکھنے والے کو تبع تابعی کہتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس رعب کا ذکر جابر ؓ کی حدیث میں ہے اس کا کچھ اثر تبع تابعیوں کے زمانہ تک باقی رہا اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ زمانہ 220؁ ہجری تک تھا اس کے بعد فلسفہ دین کا علم ٹھہر گیا اور طرح طرح کے فساد مسلمانوں میں پھیل گئے صحیح مسلم میں جابر ؓ نے یہ حدیث ابوسعید خدری ؓ کے حوالہ سے دو طرح بیان کی ہے پہلی حدیث تو بخاری کی روایت کے موافق ہے اور دوسری روایت میں چوتھا درجہ تبع تابعین کے دیکھنے والوں کا بھی ٹھہرایا ہے لیکن جبکہ جابر ؓ کی یہ روایت ابوسعید خدری ؓ کے حوالہ سے ہے اور ابوسعید خدری ؓ کی اصل حدیث جو بخاری میں ہے اس میں یہ چوتھا درجہ نہیں ہے اس واسطے علماء نے تین درجوں کی حدیث کو ترجیح دی ہے۔
Top