Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 18
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے ؟
آیت 18: اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ (کیا جو آرائش میں نشونما پائے اور وہ مباحثہ میں قوت بیانیہ نہ رکھتی ہو) یعنی کیا رحمان کے لئے ایسی اولاد ثابت کرتے ہو جس میں یہ صفت مذمومہ پائی جاتی ہو۔ اور وہ صفت اس کا آرائش وزینت میں پرورش پانا ہے۔ جب اس کو مخالف کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مقابلے کا موقعہ آئے اور مردوں سے دوبدو گفتگو کا موقعہ ہو تو وہ اپنی بات کو پورے طور پر بیان نہیں کرسکتی۔ اس کے پاس طاقت بیان نہیں اور نہ وہ کوئی دلیل پیش کرسکتی ہے اور اس کی وجہ عقل کی کمزوری ہے۔ قولِ مقاتل (رح) : عورت جب بھی گفتگو کرتی ہے تو اس کی دلیل اپنے خلاف نکلتی ہے۔ آیت میں زیب وزینت کو محل مذمت میں استعمال کیا گیا۔ پس آدمی کو چاہیے کہ وہ خوش عیشی سے گریزاں رہے۔ اور لباس تقویٰ کو زینت بنائے۔ اور منْ محلاً منصوب ہے اور معنی یہ ہے۔ اوجعلوا من ینشؤا فی الحلیۃ یعنی البنات للّٰہ عزوجل۔ کیا انہوں نے قرار دیا ان کو جو زیور میں پلتی ہیں۔ بیٹیاں اللہ تعالیٰ کے لئے۔ قراءت : یُنْشَأُ ۔ حمزہ ٗ علی ٗ حفص نے پڑھا یعنی تربیت کی جائے۔ ایک کفر میں تین کفر : انہوں نے ایک کفر میں تین کفر جمع کردیئے۔ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کی طرف لڑکے کی نسبت کی۔ نمبر 2۔ اور دونوں میں سے خسیس قسم کو اس کے لئے مقرر کیا اور نمبر 3۔ اس کو ملائکہ مکرمین میں سے قرار دیا جس سے ان کی توہین کی۔
Top