Al-Quran-al-Kareem - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم تو محض جھوٹ باندھنے والے ہو۔
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭ قَالَ يٰقَوْمِ۔۔ : ”هُوْدًا“ عطف بیان ہے ”اَخَاهُمْ“ سے۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورة اعراف (65) اے مشرکو ! اے کافرو ! کے بجائے ”يٰقَوْمِ“ (اے میری قوم !) سے مخاطب کرنے سے ان کے ساتھ اپنا تعلق اور خیر خواہی ظاہر کرنا مقصود ہے۔ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ : ”مُفْتَرُوْنَ“ ”فَرَیْ“ سے باب افتعال (اِفْتِرَاءٌ) کا اسم فاعل جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ افترا یعنی جان بوجھ کر ایسا جھوٹ بولنا جس کے متعلق بولنے والے کو بھی معلوم ہو کہ یہ صاف جھوٹ ہے، یعنی اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی ہے ہی نہیں، تمہارا کسی غیر کو معبود بنانا محض افترا ہے۔
Top