Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور ہم نے عدا کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا) انہوں نے کہا کہ میری قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو۔
50۔ 52۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے حضرت ہود (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا حضرت ہود کو قوم عاد کا بھائی فرمایا صرف بسبب قومیت اور قرابت کے عاد دو ہوئے ہیں۔ ایک حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کی اولاد میں جن کی طرف یہی حضرت ہود (علیہ السلام) پیغمبر بنا کر بھیجے گئے دوسرے عاد شداد اور لقمان اور ان کی قوم جن کا ذکر { ارم ذات العماد } ہے عاد ایک شخص کا نام تھا اسی کے نام پر ایک قبیلہ مشہور ہوگیا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) سے آٹھ سو برس کے بعد دنیا میں آئے ان کی عمر چار سو چونسٹھ برس کی ہوئی قوم عاد ملک شام اور ملک یمن کے بیچ میں ایک ریگستان میں رہتی تھی اور تبول کی پرستش کرتی تھی اس قوم کی سرکشی کے سبب سے تین برس تک مینہ نہیں برسا تھا جس کے سبب سے ان کے کھیتوں کو سخت نقصان پہنچا اور کال پڑگیا اور تیس برس تک ان کی عورتیں بانجھ رہیں کسی کے یہاں بچہ نہ ہوا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کو خدا کی طرف بلایا کہ اے قوم میری تم اس خدا کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے تم جن بتوں کو پوجتے ہو اور ان کو اپنا شفیع سمجھتے ہو تم اس خیال میں جھوٹے ہو کوئی سند تمہارے پاس اس کی نہیں ہے کہ سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی معبود ہے یا کسی اور کے اختیار میں تمہارا نفع نقصان ہے کیا تمہیں اتنی سمجھ نہیں کہ یہ بت نہ تمہارا قحط دفع کرسکتے ہیں نہ تمہاری عورتوں کو اچھا کرسکتے ہیں میں جو نصیحت کرتا ہوں اور حق کی طرف بلاتا ہوں اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا ہوں یہ محض اللہ کے لئے ہے وہی اجر دے گا جس نے مجھے پیدا کیا ہے تمہیں غور کرنا چاہیے کہ ایک شخص بلا اجرت اور مفت میں تمہاری دنیا اور آخرت کو درست کر رہا ہے اور تم اس کا کہنا نہیں مانتے اپنے سرکش سرداروں کے کہنے پر چلتے ہو اے قوم تم کو بھی ضروری ہے کہ جو کچھ تم سے گناہ ہوچکے ہیں اس کے لئے خدا سے استغفار کرو اور آئندہ کے لئے توبہ کرلو کہ اب گناہ کے پاس بھی نہ جائیں گے اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے موسلا دہار مینہ برسائے گا تمہاری ساری کھیتیاں سرسبز ہوجائیں گی تمہارے رزق میں ترقی ہوجائے گی اور تمہاری قوتیں بھی بڑھ جائیں گیں اور نسل بھی بڑھے گی اور اگر میری نصیحت سے منہ موڑو گے تو مجرم ٹھہرو گے۔ ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ہمیشہ استغفار پڑھا کیا کرتا ہے ہر ایک غم سے آزاد ہوجاتا ہے اور ہر سختی سے اس کو نجات ملتی ہے اور جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا وہاں سے اس کو روزی 1 ؎ ملتی ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 2 ؎ یہ لوگ بت پرست تھے اس لئے یہاں استغفار سے مقصود شرک سے باز آنا ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 204 باب الاستغفار بحوالہ سنن ابن ماجہ ابو داؤد وغیرہ۔ 2 ؎ الترغیب ص 295 ج 1 الترغیب نے الاستغفار۔
Top