Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
پھر کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹوں کے ساتھ چن لیا اور خود فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لی ہیں ؟ بیشک تم یقینا ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بالْبَنِيْنَ۔۔ : اس آیت میں مشرکین عرب کی جہالت پر طنز ہے، جو یہ کہہ کر فرشتوں کی عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ دیکھیے سورة نجم (21، 22، 27، 28) ، زخرف (19) اور نحل (57، 58) فرمایا کتنی بڑی بات کہہ رہے ہو کہ وہ جو ہر شے کا خالق ومالک ہے، اس نے تمہیں اولاد میں سے بیٹوں کے لیے خاص کرلیا جو افضل ہیں اور اپنے لیے بیٹیاں بنالیں جنھیں تم نہایت ردی اور باعث عار سمجھتے ہو اور بعض اوقات زندہ دفن کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یقیناً یہ بہت بڑی گستاخی کی بات ہے۔ اگر اس نے اولاد بنانی ہی تھی تو وہ جس طرح کی چاہتا بنا لیتا، پھر وہ محض بیٹیاں ہی کیوں رکھتا ؟ (دیکھیے زمر : 4) وہ تو بیٹے بیٹیوں سے ہے ہی پاک، کیونکہ یہ محتاجی کی دلیل ہے۔ دیکھیے سورة اخلاص کی تفسیر، سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت اور مریم کی آیات (88 تا 95)۔
Top