Mafhoom-ul-Quran - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
مشرکو ! کیا تمہارے رب نے تم کو تو لڑکے دیے اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا کچھ شک نہیں کہ یہ تم بڑی نامعقول بات کہتے ہو۔
نزول ِقرآن کا مقصد تشریح : اللہ تعالیٰ تو ویسے ہی تمام رشتہ داریوں سے بالکل بےنیاز ہے۔ وہ بس اکیلا ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا تو کفار کا یہ کہنا انتہائی نامعقول بات ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں نعوذ باللہ۔ قرآن پاک میں بار بار حکمت اور توحید کے بارے میں بتایا گیا ہے مگر یہ لوگ عقل کے اندھے اور بھی زیادہ گمراہی اور نفرت میں بڑھ جاتے ہیں۔ اگر اللہ کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو دستور کے مطابق وہ ضرور اللہ سے جنگ کرنے کے لیے عرش کی طرف بڑھتے اور ضرور بغاوت کرتے۔ توبہ کرو کیونکہ الہ العلمین کفر و شرک سے بہت زیادہ بلند اور عظیم ہے۔ کیونکہ اس کے برعکس ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب مل کر اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اپنے طریقہ سے تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ جس کو انسان سن اور سمجھ نہیں سکتے۔ بیشک اللہ تعالیٰ تحمل والا اور بخشنے والا ہے۔ سورة بقرہ میں پہاڑوں کے پتھروں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : پہاڑ کے بعض پتھر اللہ کے خوف سے نیچے گر جاتے ہیں اس سے پتھروں میں شعور اور اللہ سے خوف زدہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایٹم سے لے کر بڑے بڑے اجرام فلکی تک سب ارتعاش میں ہیں یہی ارتعاش تسبیح کہلا سکتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہر چیز حیوانات، جمادات اور نباتات غرض دنیا کی کل مخلوقات سوائے انسان کے اللہ کے اس بنائے ہوئے نظام کے تحت کام کر رہی ہے جو ان کے لیے اللہ نے مقرر کر کے ان کی فطرت میں پوری طرح مقرر کردیا ہے۔ مثلاً سورج، چاند اور باقی تمام اجرام فلکی نے اسی طرح گردش کرنی ہے جیسے ان کے رب نے حکم دے دیا ہے وہ اس کے حکم کے بغیر ہرگز ایک سکینڈ کے لیے بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتے یہ بھی اللہ کی تسبیح کی ایک شکل ہوسکتی ہے یعنی اپنے مالک اور خالق کی اس حد تک فرمانبرداری کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غفلت نہ برتی جائے یہ حمد اور تسبیح نہیں تو اور کیا ہے۔ انسان بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے مگر اس کو تسبیح و تقدیس کے لیے زبان اور طریقہ بتا کر اختیار دے دیا گیا ہے کہ چلو اب اپنی مرضی سے راہ اختیار کرو، پھر بعد میں تم سے حساب لیا جائے گا۔ اسی لیے انسان، باقی تمام مخلوقات کی تسبیح کا طریقہ اور آواز نہیں جان سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کے کام کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 20 ہزار سایئکل فی سکینڈ کی آواز سن سکتا ہے جبکہ سائنس کی رو سے اجرام فلکی کا ارتعاش صفر سے لے کر بیس چکر فی سیکنڈ سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے جو کہ انسانی سماعت سے باہر ہے، ہاں ! البتہ کچھ حیوانات اس لحاظ سے قوت سماعت نسبتاً زیادہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ زلزلہ کی آمد کا احساس پرندوں کو اور کتوں وغیرہ کو بغیر کسی سائنسی آلہ کے بہت پہلے سے ہوجاتا ہے۔ یہ سب قدرت کے کمالات ہیں۔ ان سب کو پوری طرح سمجھ لینا انسان کے بس سے باہر ہے۔ سلطان بشیر محمود صاحب کچھ اس طرح وضاحت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :” حقیقت یہ ہے کہ ساری سائنس کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ اللہ کے قوانین اٹل ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ ان سے آگاہ ہے، اور ان کی اتباع (پیروی) کرتا ہے اور یوں اپنے مالک حقیقی کا عبد (غلام) ہے۔ “ (از قیامت اور حیات بعدالموت) کیا خوب تعریف کی ہے موصوف نے واقعی اس کے کمالات کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ جانا انسان کے بس سے باہر ہے، البتہ غور و فکر اور جستجو کا حکم اللہ نے ضروردیا ہے اور فہم و فراست بھی عطا کی ہے۔ مگر پھر بھی عبد تو اسی خالق ومالک کا ہے جس نے انسان کو بنایا آسمان کو بنایا اور ان تمام چیزوں کو بنایا جو ان کے درمیان ہیں۔ سورة بقرہ آیت 74 اور سورة ٔرعد آیت 13 اس بات کا ثبوت دے رہی ہیں کہ تمام مخلوقات اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اسی سے خوف زدہ بھی ہے مگر انسان نہ اس کی تسبیح کی آواز سن سکتا ہے نہ اس کی تسبیح کے طریقے کا شعور رکھتا ہے۔
Top