Dure-Mansoor - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹوں کے ساتھ مخصوص کردیا اور فرشتوں کی اپنی بیٹیاں بنالیا بلاشبہ تم بڑی بات کہتے ہو۔
1:۔ عبد الرازق، ابن جری، ابن منذر اور ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” واتخذ من الملئکۃ اناثا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہودیوں نے فرشتوں کو حق جل شانہ کی بیٹیاں کہا اور (آیت) ” قل لوکان معہ الہۃ “ سے مراد ہے کہ (اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خدا ہوتا) تو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی فضیلت کو ان پر جان لیتے پس وہ ایسا حیلہ (ضرور) تلاش کرتے جو ان کو اس کے قریب کردیتا (اور) بلاشبہ وہ (فرشتے) ایسے نہیں ہیں جیسے وہ کہتے ہیں۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذا ابتغوا الی ذی العرش سبیلا “ سے مراد ہے کہ وہ (دوسرے خدا) عرش والے پر غلبہ کی راہ تلاش کرتے کہ کہاں ہیں کہ اس کی بادشاہی کو زائل کردیں۔ قولہ تعالیٰ : تسبح لہ السموت السبع والارض ومن فیھن “۔ 3:۔ سعید بن منصور، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابونعیم نے حلیہ میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبدالرحمان بن قرط (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رات کو مسجد اقصی کی طرف تشریف لے گئے جبرائیل (علیہ السلام) ان کی داہنی طرف اور میکائیل (علیہ السلام) ان کی بائیں طرف تھے یہ دونوں فرشتوں آپ کو بلند آسمان پر لے گئے جب آپ واپس ہوئے تو فرمایا کہ میں بلند آسمانوں میں تسبیح کثیر کے ساتھ ایک اور تسبیح سنی بلند آسمانوں نے ہیبت والی ذات سے ڈرتے ہوئے بلند مرتبہ ذات کی تسبیح بیان کی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بلند مرتبہ اور بلند مقام ہے اس کی ذات پاک اور بلند ہے۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے لوط بن ابی لوط (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے آسمان دنیا کی تسبیح ” سبحان ربنا الاعلیٰ “ ہے (یعنی ہمارا اعلیٰ رب ہر عیب ونقص سے پاک ہے) اسی طرح دوسرے آسمان کی تسبیح ” سبحانہ وتعالیٰ “ ہے اور تیسرے آسمان کی تسبیح ” سبحانہ وبحمدہ “ ہے اور چوتھے آسمان کی تسبیح ” سبحانہ لاحول ولا قوۃ الا بہ “ ہے اور پانچویں آسمان کی تسبیح ” سبحان محی الموتی وھو علی کل شیء قدیر “ ہے اور چھٹے آسمان کی تسبیح ” سبحان الملک القدوس “ ہے اور ساتویں آسمان کی تسبیح ” سبحان الذی ملاء السموت السبع والارضین السبع عزۃ وقارا “ ہے۔ آسمانوں میں فرشتوں کی تعداد : 5:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا اور آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ نے ایک آواز سنی کہ آسمان چڑ چڑارہا ہے اور اس کے لئے حق ہے کہ چڑچڑائے صحابہ کرام ؓ نے پوچھا چڑچڑانا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ آسمان ٹوٹ رہا ہے اور اس کا ٹوٹنا حق ہے کہ وہ (ایک دوسرے کی) مخالفت کریں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے آسمان میں ایک بالشت جگہ بھی اس میں ایسی نہیں ہے کہ جس میں فرشتہ کی پیشانی سجدہ نہ کررہی ہو اور وہ اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتا ہے۔ 6:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا (آیت) ” تسبح لہ السموت السبع والارض “ کو تاء کے ساتھ۔ وقولہ تعالیٰ : وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن ال تفقھون تسبیحہم ‘ ـ: 7:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم نے اور ابو الشیخ نے عظمہ میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتاوں کہ جس کا نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو حکم دیا تھا نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے بیٹے سے اے میرے بیٹے ! میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ تو یوں کہہ ” سبحان اللہ “ کیونکہ یہ مخلوق کی نماز ہے اور مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی کی ذریعہ مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ 8:۔ احمد اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب نوح (علیہ السلام) کو موت حاضر ہوئی تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ میں تم کو ” سبحان اللہ وبحمدہ “ پڑھنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کے ذریعہ ہر چیز کو رزق دیا جاتا ہے۔ 9:۔ ابن مردویہ اور ابو نعیم نے فضائل ذکر میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مرغ کی آواز اس کی نماز ہے اور اس کا اپنے پروں کا پھڑپھڑانا اس کے سجدے اور رکوع ہیں پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن الا تفقھون “ 10:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آواز دینے والا آسمان سے آواز دیتا ہے تم اللہ کو یاد کرو وہ تم کو یاد کرے گا مرغے سے پہلے اس کو کوئی نہیں سنتا پس وہ اذان دیتا ہے تو یہ اس کی تسبیح ہوتی ہے۔ 11:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں اور ابن مردویہ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانوروں کے چہروں کو نہ مارو کیونکہ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے۔ 12:۔ ابوالشیخ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ جانوروں کے چہروں پر طمانچہ مت مارو کیونکہ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ 13:۔ احمد نے معاذ بن انس ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم پر سے گزرے اور وہ اپنے جانوروں اور کجاوں پر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ ان پر سواری کرو سلامتی کے ساتھ اور ان کو چھوڑو سلامتی کے ساتھ اور ان کو کرسی نہ بناؤ راستوں میں اور بازاروں میں باتیں کرتے ہوئے بسا اوقات سواری بہتر ہوتی ہے اپنے سوار سے اور وہ سوار سے زیادہ ذکر کرنے والی ہوتی ہے۔ 14:۔ ابن مردویہ نے عمرو بن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورج بلند ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر چیز تسبیح بیان کرتی ہے اس کی تعریف کے ساتھ مگر شیاطین اور بنو آدم کے اغنیاء میں سے (تسبیح بیان) نہیں کرتے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کوئی بندہ ( جب) اللہ تعالیٰ تسبیح بیان کرتا ہے تو اللہ کی مخلوق میں سے ہر چیز تسبیح بیان کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ 16:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چیونٹی بھی (اللہ تعالیٰ کی) تسبیح بیان کرتی ہے۔ 17:۔ بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹی کی بستی جلانے کا حکم فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ایک چیونٹی کی وجہ سے امتوں میں سے ایک امت کو آپ نے جلا دیا جو تسبیح بیان کرتی ہے۔ 18۔ نسائی، ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا اس کا ٹرٹرانا تسبیح بیان کرنا ہے۔ 19:۔ ابوالشیخ نے العظمہ میں اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ نے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ کے بارے میں فرمایا کہ کھیتی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور اس کا اجر کھیتی کے مالک کو ملتا ہے اور کپڑا تسبیح بیان کرتا ہے اور میل کچیل کہتی ہے اگر تو مؤ من ہے تو مجھ کو دھودے؛۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے ابو قبیل (رح) سے روایت کیا کہ کھیتی تسبیح بیان کرتی ہے اور اس کا ثواب اس کے لئے ہے جس نے اس کو اگایا۔ 21:۔ ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہر چیز اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے مگر گدھا اور کتا نہیں کرتا۔ ہر مخلوق تسبیح بیان کرتی ہے : 22:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ کے بارے میں روایت کیا کہ کہ ستون تسبیح بیان کرتا ہے اور درخت تسبیح بیان کرتا ہے۔ 23:۔ سعید بن منصور، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ تم میں سے کوئی ہرگز اپنے جانور کو عیب نہ لگائے اور نہ اپنے کپڑے کو کیونکہ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے۔ 24:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ اور خطیب نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ دروازہ کا آواز دینا بھی اس کی تسبیح ہے۔ 25:۔ ابن ابی حاتم نے ابوغالب شیبانی (رح) سے روایت کیا کہ سمندر کی آواز اس کی تسبیح ہے اور اس کی موجیں اس کی نماز ہے۔ 26:۔ ابن ابی حاتم نے نخعی (رح) سے روایت کیا کہ کھانا تسبیح بیان کرتا ہے۔ 27:۔ ابن ابی شیبہ، احمد نے زہد میں اور ابوالشیخ نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ ایک کوا ابوبکر صدیق ؓ کے پاس لایا گیا لمبے پروں والا اس نے اپنے پروں کو پھیلانا شروع کیا اور آپ نے فرمایا جو پرندہ شکار کیا گیا اور جو درخت کاٹا گیا اس کی تسبیح ضائع ہوگئی۔ 28:۔ ابن راھویہ نے مسند میں زہری کے طریق سے زہری (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکرصدیق ؓ کے پاس ایک کوا لمبے پروں والا لایا گیا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو پرندہ شکار کیا گیا اور جو درخت کاٹا گیا جو اس کی ٹہنی کاٹی گئی یہ سب کچھ تسبیح کی قلت کی وجہ سے ہوا۔ 29:۔ ابونعیم نے حلیہ میں اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شکار نہیں کیا گیا اور ٹہنی نہیں کاٹی گئی مگر تسبیح کے ضائع ہونے کی وجہ سے۔ 30:۔ ابونعیم نے حلیہ میں اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں شکار کیا جاتا کوئی پرندہ آسمان میں اور نہ کوئی مچھلی پانی میں یہاں تک کہ وہ چھوڑ دیتی ہے اس تسبیح کو جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض فرمائی ہے۔ 31:۔ ابوالشیخ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو پرندہ یا مچھلی پکڑی جاتی ہے ہو تسبیح کے ضائع کرنے کی وجہ سے۔ 32:۔ ابوالشیخ نے مرثد بن ابو مرثد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی چیز شکار نہیں کی جاتی پرندوں میں سے اور مچھلیوں میں سے مگر اللہ کی تسبیح ضائع کردینے کی وجہ سے۔ 33:۔ ابن عساکر نے یزید بن ابی مرثد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی پرندہ شکار نہیں کیا جاتا خشکی میں یا سمندر میں مگر اپنی تسبیح ضائع کردینے کی وجہ سے۔ 34:۔ عقیلی نے ضعفاء میں ابو الشیخ نے اور دیلمی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سارے جانوروں کی عمریں اور زمین کیڑے مکوڑوں کی، چیونٹی کی، مچھر کی، مکڑی کی، گھوڑے کی، خچر کی اور سارے جانوروں کی اور اس کے علاوہ دوسرے جانوروں کی عمریں تسبیح کے سبب سے ہوتی ہے جب اس کی تسبیح ختم ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو روحوں کو قبض کرلیتے ہیں اور ملک الموت کے لئے ان میں سے کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ 35:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ سے مراد ہے کہ اصل اول میں کوئی چیز ہرگز نہیں مرتی مگر وہ تسبیح بیان کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ۔ 36:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ سے مراد ہے کہ اصل اول میں کوئی چیز ہرگز نہیں مرتی مگر وہ اس کی حمد کے تسبیح بیان کرتی ہے۔ 37:۔ ابن ابی حاتم نے ابن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ حسن اپنے ساتھیوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے بعض (ساتھیوں) نے کہا کہ یہ دسترخوان اب تسبیح بیان کررہا تھا حسن (رح) نے فرمایا یقینا ہر چیز جو اپنی اصل پر ہوتی ہے وہ تسبیح بیان کرتی ہے۔ 38:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ کھانا تسبیح بیان کرتا ہے۔ 39:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ مینڈک کو قتل نہ کرو کیونکہ اس کی آواز اس کی تسبیح کا بیان ہے۔ 40:۔ ابن ابی الدنیا، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ اور بیہقی نے شعب میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ جتنی اللہ کی تعریف انہوں نے کہ ہے اتنی اپنے خالق کی کسی اور نے نہیں کی ایک فرشتہ نازل ہوئی اور آپ محراب میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کی ایک جانب پانی کا تالاب تھا اس نے کہا اے داود مینڈک کی آواز کو غور سے سنو اور سمجھو داود (علیہ السلام) خاموش ہوگئے کہ مینڈک اللہ کی مدح بیان کررہا تھا جو داود (علیہ السلام) نے بھی ایسی مدح نہ کی تھی فرشتے نے ان سے کہا اے داود آپ نے اس کو کیسے پایا کیا آپ نے سمجھا جو مینڈک کہہ رہا تھا فرمایا اس نے کہا ” سبحانک وبحمدک منتھی علمک یارب “ داود (علیہ السلام) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنایا بلاشبہ میں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی تسبیح نہیں کی۔ 41:۔ بیہقی نے شعب میں صدقہ بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) اپنے محراب میں تھے ایک چھوٹے موتی کو دیکھا اس کی پیدائش میں غوروفکر کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی تخلیق کی ضرورت ہی کیا تھی فرماتے اللہ تعالیٰ نے اس کو بولنے کی قوت عطا فرمادی اس نے کہا اے داود کیا اب تم اپنے آپ پر فخر کررہے ہو جو اللہ تعالیٰ کی قدرت عطا فرمائی ہے میں آپ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرتا ہوں اور اس کا شکر کرتا ہوں جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے (طاقت) دی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ 42:۔ ابن منذر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت تورات میں ہزار آیتوں کی مقدار کی طرح ہے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ تورات میں فرمایا پہاڑ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں درخت اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور فلاں چیز اور فلاں چیز اس کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ہرمخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابع ہے : 43:۔ احمد نے زہد میں اور ابوالشیخ نے شہر بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) کا نام نواح تھا اللہ عزوجل کی کتاب میں ایک دفعہ وہ چلے یہاں تک کہ سمندر پر آئے اور فرمایا اے سمندر میں بھاگنے والا ہوں کہا اس طالب سے جس کا طلب کرنا دور نہیں داود (علیہ السلام) نے فرمایا اے سمندر مجھے اپنے پانی میں سے ایک قطرہ بنا دے یا ان جانوروں میں سے بنا دے جو تیرے اندر ہیں یا اپنی مٹی میں سے مٹی بنا دے یا اپنی چٹان میں ایک چٹان بنا دے۔ سمندر نے کہا اے اس طالب سے بھاگنے والے بندے جس کا طلب کرنا دور نہیں لوٹ جا جہاں سے تو آیا کیونکہ میرے اندر جو کچھ ہے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کو گن لیتے ہیں پس میں تیری بات پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر وہ چلے یہاں تک کہ پہاڑ کے پاس آئے اور کہا اے پہاڑ مجھ کو پتھر بنا دے اپنے پتھروں میں سے یا مٹی بنا دے اپنے مٹی میں سے یا چٹان بنا دے اپنی چٹان میں سے یا ان چیزوں میں سے بنا دے جو تیرے پیٹ میں ہیں پہاڑ نے کہا اے اس طالب سے بھاگنے والے بندے تو بھاگنے والا ہے ایسے طالب سے جس کا طلب کرنا دور نہیں کیونکہ میرے اندر جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کو شمار کرتے ہیں میں تیری خواہش پوری نہیں کرسکتا۔ پھر داود (علیہ السلام) چلے یہاں تک کہ ریت کے پاس آئے اور کہا اے ریت مجھ کو مٹی بنا دے اپنی میں سے یا مٹی بنا دے اپنے مٹی میں سے یا چٹان بنا دے اپنی چٹان میں سے یا ان چیزوں میں سے بنا دے جو تیرے پیٹ میں ہیں اللہ تعالیٰ نے رایت کی طرف الہام فرمایا کہ اسے جواب دے رایت نے کہا اے اس طالب سے بھاگنے والے بندے تو بھاگنے والا ہے ایسے طالب سے جس کا طلب کرنا دور نہیں لوٹ جا جہاں سے تو آیا اپنے عمل کو دو طرح سے کر رغبت سے یا خوف تیرا رب جس طرح بھی قبول کرے کوئی پرواہ نہیں داود (علیہ السلام) سمندر پر پہنچے ایک گھڑی میں اور اس میں نماز پڑھی آپ کو ایک مینڈک نے آواز دی اور کہا اے داود (علیہ السلام) تو نے اپنے دل میں یہ بات کی ہے کہ بلاشبہ تو نے ایسے وقت میں تسبیح بیان کی ہے اور اس وقت میں تیرے علاوہ کسی نے اللہ کو یاد نہیں کیا اور بلاشبہ ستر ہزار مینڈکوں میں سے ہوں سب کے سب ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اللہ کی تسبیح و تقدیس بیان کررہے ہیں۔ 44:۔ احمد اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے ایک رات صبح تک نماز پڑھی جب صبح ہوئی تو اپنے دل میں غرور کو پایا تو ایک مینڈک نے انکو آواز دی اے داود میں تجھ سے زیادہ عبادت کرتا ہوں تو نے تھوڑی سی اونگھ کی اور میں تو اونگھ نہیں لیتا۔ 45:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں ابو بردہ ؓ سے اور انہوں نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی کہ اس سرخ کیڑے سے زیادہ تسبیح کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ 46:۔ ابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ مٹی تسبیح بیان کرتی ہے جب اس کے ذریعہ دیوار بنائی جائے تو وہ بھی تسبیح بیان کرتی ہے۔ 47:۔ ابوالشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب تو گھر میں سے یالکڑی میں سے اور دیوار میں غیض وغضب کی آواز سنو تو وہ تسبیح ہوتی ہے۔ 48:۔ ابوالشیخ نے خیثمہ (رح) سے روایت کیا کہ ابودرداء ؓ ہانڈی پکار رہے تھے تو انہوں نے ہنڈیا کے منہ پر کان لگایا تو وہ تسبیح بیان کررہی تھی۔ 49:۔ ابوالشیخ نے سلیمان بن المغیرہ (رح) سے روایت کیا کہ مطرف جب اپنے مکان میں داخل ہوتے اور تسبیح بیان کرتے تو ان کے ساتھ ان کے گھر کے برتن بھی تسبیح بیان کرتے۔ 50:۔ ابوالشیخ نے حسنرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اگر تم سے گھر میں موجود چیزوں کی تسبیح پوشیدہ نہ ہوتی تو تم کو کبھی قرار نہ ملتا۔ 51:۔ ابوالشیخ نے مسعر (رح) سے روایت کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی تسبیح تم سے پوشیدہ نہ رکھتا تو تم کو (کسی جگہ) سکون نہ ملتا۔ 52:۔ ابوالشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “ سے مراد ہے کہ ہر وہ چیز جس میں روح ہے وہ تسبیح بیان کرتی ہے۔ 53:۔ ابوالشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “ سے مراد ہے مخلوق کی نماز اور ان کی تسبیح ” سبحان اللہ وبحمدہ “ ہے۔ پانی کے تسبیح کرنے کا واقعہ : 54:۔ نسائی اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ نے بیان فرمایا ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب آیات کو برکت کے لئے شمار کرتے ہیں اور تم خوف کے لئے شمار کرتے ہو اس درمیان کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہمارے ساتھ پانی نہیں تھا آپ نے ہم کو فرمایا طلب کرو جس کے پاس پانی بچا ہوا ہو پانی لایا گیا تو آپ نے اس کو ایک برتن میں رکھا پھر اس میں آپ نے اپنے ہاتھ کو رکھا پانی نے آپ کی انگلیوں میں سے نکلنا شروع کیا پھر آپ نے فرمایا آجاؤ پاک پانی پر جو مبارک ہے اور برکتوں والا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم نے اس میں سے پیا عبداللہ ؓ نے کہا ہم پانی کی آواز اور اس کی تسبیح سنتے تھے۔ جب وہ اس کو پیتے تھے۔ 55:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھا رہے تھے تو ہم نے کھانے کی تسبیح کو سنا اور وہ کھایا جارہا تھا۔ 56ـ:۔ ابوالشیخ نے انس ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ثرید کھانا لایا گیا آپ نے فرمایا یہ کھانا تسبیح پڑھ رہا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا آپ اس کی تسبیح کو سمجھ رہے ہیں ؟ فرمایا ہاں پھر ایک آدمی سے فرمایا اس پیالے کو اس آدمی کے قریب کر دو اس نے اس کے قریب کردو اس آدمی نے کہا ہاں یا رسول اللہ ﷺ یہ کھانا تسبیح بیان کررہا ہے پھر آپ نے فرمایا اس کو دوسرے آدمی کے قریب کردو اس آدمی نے دوسرے آدمی کے قریب کردیا تو اس نے بھی کہا کہ یہ کھانا تسبیح بیان کررہا ہے پھر آپ نے فرمایا اس کو واپس کردو اس آدمی نے کہا یارسول اللہ ﷺ کاش کہ آپ ساری قوم کو حکم فرماتے (تو سب سن لیتے) آپ نے فرمایا نہیں اگر کسی آدمی نے پاس (جاکر) یہ کھانا خاموش ہوجاتا (اور تسبیح نہ پڑھتا تو وہ شک میں پڑجاتا) صحابہ ؓ نے پیچھے سے کہا اس کو لوٹا دو تو اس آدمی نے لوٹا دیا۔ 57ـ:۔ ابوالشیخ اور ابونعیم نے حلیہ میں ابوحمزہ الشمالی سے روایت ہے کہ محمد بن علی بن حسین (رح) نے فرمایا اور انہوں نے چڑیوں کو سنا کہ وہ چہچہا رہی تھیں فرمایا کیا تو جانتا ہے یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ میں نے عرض نہیں فرمایا یہ اپنے رب عزوجل کی تسبیح بیان کررہی ہیں اور ان سے اپنے دن کی خوراک طلب کررہی ہیں۔ 58:۔ خطیب نے ابو حمزہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم علی بن حسین (رح) کے ساتھ تھے ہم چڑیوں کے پاس سے گزرے جو چہچا رہی تھیں انہوں نے فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ چڑیاں کیا کہہ رہی ہیں ؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا میں یہ نہیں کہ تاکہ ہم غیب جانتے ہیں لیکن میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ پرندہ جب صبح کرتا ہے تو اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے اور اپنے دن کی خوراک کا سوال کرتا ہے اور یہ پرندہ بھی اپنے رب کی تسبیح بیان کررہا ہے اور اپنے دن کی خوراک طلب کررہا ہے۔ 59:۔ خطیب نے تاریخ میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا اے عائشہ ؓ یہ دونوں چادریں دھو دو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ گذشتہ روز میں نے ان دونوں کو دھولیا تھا آپ نے مجھ سے فرمایا کیا تو جانتی ہے کہ کپڑا تسبیح بیان کرتا ہے جب میلا ہوجاتا ہے تو اس کی تسبیح ختم ہوجاتی ہے۔ 60:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انہ کان حلیما غفورا “ میں حلیم سے مراد ہے کہ اپنی مخلوق سے بربادی کا معاملہ کرنے والے اور جلدی نہیں فرماتے جیسے کہ جلدی کرتا ہے ان کا بعض بعض سے ان کی مغفرت کرتے ہیں۔ جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ابولہب کی بیوی کا ذلت سے واپس ہونا : 61:۔ ابویعلی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو نعیم، اور بیہقی دونوں نے دلائل میں (ابن ابی حاتم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” تبت یدا ابی لہب وتب “ نازل ہوئی تو کانی ام جمیل آئی اور غصہ میں بھڑکی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں پتھر تھا اور وہ کہہ رہی تھی مذمم کا ہم نے انکار کیا اور اس کے دین سے نفرت کی اور اس کے حکم کی ہم نے نافرمانی کی اور رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پہلو میں تھے ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا یہ عورت آرہی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ آپ کو دیکھ نہ لے آپ نے فرمایا وہ مجھے ہرگز نہ دیکھ سکتی آپ نے قرآن پڑھا تو آپ بچ گئے اللہ تعالیٰ فرمایا (آیت) ” واذا قرات القرآن جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مستورا “ وہ عورت آئی اور ابوبکر ؓ کے پاس کھڑی ہوگئی اور نبی کریم ﷺ کو نہ دیکھا کہنے لگی اے ابوبکر مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ تیرے ساتھی (یعنی رسول اللہ ﷺ نے میری ہجو کی ہے ابوبکر ؓ نے فرمایا نہیں اور اس گھر کی قسم اس نے تیری ہجو نہیں کی اور وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ قریش جانتے ہیں میں سردار کی بیٹی ہوں۔ 62:۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ایک سند کے ساتھ روایت نقل کی کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان فرمایا کہ ام جمیل ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور رسول اللہ ﷺ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگی اے ابن ابی قحافہ (یہ ابوبکر کی کنیت ہے) تیرے ساتھی کا کیا حال ہے کہ وہ شعر میں ہجو کرتا ہے ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میرا ساتھی شاعر نہیں ہے اور وہ نہیں جانتا شعر کیا ہے ؟ اس نے کہا کیا اس نے یہ نہیں کہا (آیت) ” فی جیدھا حبل من مسد “ کیا وہ جانتا ہے کہ میری گردن میں کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس کو کہو کیا تو میرے ساتھ کسی کو دیکھ رہی ہو ؟ کیونکہ وہ مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتی میرے اور اس کے درمیان پردہ کردیا گیا ہے ابوبکر ؓ نے (یہ بات) اس سے کہی تو اس عورت نے کہا کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے اللہ کی قسم میں تیرے پاس کسی کو نہیں دیکھتی۔ 63:۔ ابن مردویہ نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ میں مقام ابراہیم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ میرے آگے کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے اچانک ام جمیل بنت حرب بن امیہ ابو لہب کی بیوی آئی اور اس کے ساتھ دو پتھر تھے کہنے لگی وہ کہاں ہے جس نے میری اور میرے خاوند کی ہجو کی ہے اللہ کی قسم اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میں ان دونوں پتھروں کے اس کے دانت توڑ دوں گی اور یہ اس نے اس وقت کہا جب (آیت) ” تبت یدا ابی لہب “ کی سورت نازل ہوئی ابوبکر ؓ نے فرمایا میں نے اس سے کہا اے ام جمیل اس نے تیری اور تیرے خاوند کی ہجو نہیں کی اس نے کہا اللہ کی قسم تو جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں لیکن لوگ اس طرح کہتے ہیں پھر پیٹھ پھیر کر چلی گئی میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ اس نے آپ کو نہیں دیکھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے اور اس کے درمیان جبرائیل (علیہ السلام) حائل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ : 64:۔ ابن ابی شیبہ اور دارقطنی نے افراد میں اور ابو نعیم نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب (آیت) ” تبت یدا ابی لہب “ نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی آئی تو ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اگر آپ اس (عورت) سے ہٹ جاتے (تو اچھا تھا) کیونکہ وہ بد زبان عورت ہے آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب میرے اور اس کے درمیان ایک چیز حائل ہوجائے گی اور وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی اس عورت نے کہا اے ابوبکر تیری ساتھی (یعنی محمد ﷺ نے ہماری ہجو کی ہے ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم وہ شعر نہیں کہتے اور نہ اس نے (یہ شعر) کہے ہیں اس عورت نے کہا تو واقعی سچا ہے پھر وہ چلی گئی ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اس نے آپ کو نہیں دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ تھا اس نے مجھے اپنے پر سے چھپالیا تھا یہاں تک وہ چلی گئی۔ 65:۔ ابن اسحاق اور ابن منذر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ قریش کے مشرکین پر قرآن کی تلاوت فرماتے تھے اور ان کو اللہ کی طرف بلاتے تھے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے (آیت) ” قلوبنا فی اکنۃ مما تدعوناالیہ وفی اذننا وقر ومن بیننا وبینک حجاب “ (السجدہ) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کہنے پر یہ (آیت) اتاری ” واذا قرات القران “ (الایات) 66ـ:۔ ابن عساکر اور ا کے لڑکے قاسم نے کتاب آیات الحرز میں عبا بن محمد لمنقری (رح) سے روایت کیا کہ حسین بن زید بن علی بن الحسن بن علی بن ابی طالب ؓ مدینہ منورہ حج کرتے ہوئے آرہے تھے ہم نے عرض کیا کہ پہلے ایک قاصد کو بھیجیں کیونکہ خطرہ تھا قاصد نے نکلنے سے انکار کردیا اور راستے میں اپنی جان پر خوف کیا حسین ؓ نے فرمایا میں تجھے ایک رقعہ لکھ دیتا ہوں کہ جس میں حفاظت ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز کوئی چیز تجھے تکلیف نہیں دے گی آپ نے اس کو رقعہ لکھ دیا اس نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا پھر وہ قاصد گیا کچھ عرصہ بعد سلامتی سے واپس آگیا اس نے بتایا میں اعراب کے پاس سے گذرا دائیں اور بائیں ان میں سے کسی نے میری ہجو نہیں کی اور یہ حفاظت (کا تعویذ) ہے جعفر بن محمد بن علی ابن حسین ان کے باپ دادا علی بن ابی طالب ؓ کی طرف سے اور یہ انبیاء کی تعویذ تھا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے وقت کے فرعونوں سے حفاظت کرتے تھے وہ کلمات یہ ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم : قال اخسئوفیھا ولا تکلمون (المومنون : 109) انی اعوذ بالرحمن منک ان کتب تقیا (مریم : 18) اخذت بسمع اللہ بضرہ وقوتہ علی اسماعکم وابصارکم وقوتکم یامعشرالجن والانس والشیاطین والاعراب والسباع والھوام واللصوص، ممایخاف ویحذر فلان بن فلاں، سترت بینہ وبینکم بستر النبوۃ التی استتروا بھا من سطوات الفراعۃ، جبریل، عن ایمانکم، ومیکائیل، عن شمالکم، ومحمد ﷺ امامکم واللہ سبحانہ وتعالیٰ من فوقکم یمنعکم من فلاں بن فلاں فی نفسہ وولدہ واہلہ وشرہ وبشرہ ومالہ وما علیہ وما معہ وماتحتہ وما فوقہ واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لا یومنون بالاخرۃ حجابا مستورا وجعلنا علی قلوبہم اکنۃ ان یفقھوہ وفی اذانہم وقرا واذا ذکرت ربک فی القران وحدہ ولواعلی ادبارہم نفورا و صلی اللہ علی سیدنامحمد وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔ 67ـ:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لا یومنون بالاخرۃ حجابا مستورا “ سے مراد ہے کہ وہ پردے جو ان کے دل پر پڑے ہوئے تھے جو قرآن کو سمجھنے اور اس سے نفع حاصل کرنے میں مانع تھے انہوں نے شیطان کی عبادت کی اور شیطان نے ان تسلط قائم کر رکھا تھا۔ 68:۔ ابن ابی حاتم نے روایت نقل کی کہ زھیر بن محمد (رح) نے (جب) یہ (آیت) ” واذا قرأت القران “ پڑھی تو فرمایا اس سے رسول اللہ ﷺ مراد ہیں جب انہوں نے قرآن کو مکہ کے مشرکین پر پڑھا تو وہ آپ کی آواز کو سنتے تھے مگر آپ کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ 69:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لا یومنون بالاخرۃ حجابا مستورا “ سے مراد ہے کہ وہ (جب) آپ اس کی تلاوت فرماتے تھے تو وہ بغض کی وجہ سے منہ پھیر لیتے تھے جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں پر رکھ لیتے تھے تاکہ وہ اس کو نہ سنیں جو کچھ وہ حکم دیتے تھے استغفار اور توبہ کا۔ 70:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذا ذکرت ربک فی القران وحدہ ولواعلی ادبارہم نفورا “ سے شیاطین مراد ہیں (کہ جب آپ قرآن پڑھتے تو شیاطین پیٹھ پھیر لیتے تھے) 71:۔ بخاری نے تاریخ میں ابو جعفر محمد بن علی (رح) سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں کہ تم نے کیوں چھپا رکھا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم : کو کہا ہی اچھا نام ہے اللہ کی قسم ! انہوں نے اس کو چھپایا ہے اور رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو آپ کے قریش جمع ہوجاتے آپ اونچی آواز میں پڑھتے بسم اللہ الرحمن الرحیم اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو اونچا فرماتے تو قریش پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” واذا ذکرت ربک فی القران وحدہ ولواعلی ادبارہم نفورا “ نازل فرمائی۔ 72:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذ یستمعون الیک “ سے مراد ہے عتبہ، شیبہ، ربیعہ، کے بیٹے ولیدبن مغیرہ اور عاص بن وائل۔ 73:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) (آیت) ” اذ یستمعون الیک “ کے بارے میں روایت کیا کہ مراد ہے ولید بن مغیرہ کے اور ان کے دارالندوہ میں جمع ہونے والے لوگ اور فرمایا (آیت) ” فلایستطیعون سبیلا “ فرمایا ولید بن مغیرہ اور اس کے ساتھیوں نے جو آپ کے لئے مثالیں بیان کی ہیں ان سے انہیں راستہ (یعنی عتاب) سے نہیں بچا سکتا۔ 74:۔ ابن اسحاق اور بیہقی نے دلائل میں زھری (رح) سے روایت کیا کہ مجھے یہ بات بتائی گئی کہ ابوجہل اور ابوسفیان اور اخنس بن شریق رسول اللہ ﷺ سے ایک رات (قرآن) سننے کے لئے نکلے اور آپ رات کو اپنے گھر میں نماز پڑھ رہے تھے ان میں سے ہر ایک آدمی اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر سننے لگا اور ہر ایک ان میں سے اپنے ساتھی کی موجودگی کو نہ جانتا تھا ان کے سننے کے لئے سب نے رات یہیں گذاری یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوئی تو (آپس میں) جدا ہوگئے اتفاقا راستے میں جمع ہوگئے تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے بعض نے بعض سے کہا آئندہ کبھی نہ جائیں گے اگر کوئی بیوقوف تم کو دیکھ لیتاتو وہ کچھ اور ہی سوچتا پھر سب چلے گئے یہاں تک جب دوسری رات ہوئی ان میں سے ہر ایک آدمی اپنی اپنی جگہ پر چلا گیا اور انہوں نے (قرآن) سنتے ہوئے رات گذاری یہاں تک فجر طلوع ہوئی تو متفرق ہوگئے پھر وہ راستے میں جمع ہوئے تو بعض نے بعض سے کہا جیسے انہوں نے پہلی مرتبہ کہا پھر یہ لوگ چلے گئے یہاں تک کہ جب تیسری رات ہوئی ان میں سے ہر ایک آدمی اپنی جگہ پر آگیا انہوں نے رات قرآن سنتے ہوئے گذاری یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی تو علیحدہ علیحدہ گھر جارہے تھے تو راستے میں ملاقات ہوگئی بعض نے بعض سے کہا ہم برابر یہ کام کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم آپس میں معاہدہ کرلیں کہ ہم دوبارہ نہیں آئیں گے اس بات پر انہوں نے آپس میں معاہدہ کرلیا پھر وہ آپس میں جدا ہوگئے جب صبح ہوگئی تو اخنس ابوسفیان کے پاس اس کے گھر میں آیا اور کہا مجھے بتا اپنی رائے کے بارے میں اس چیز میں جو تو نے محمد ﷺ سے سنا ہے اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے ایسی چیزیں سنی ہیں کہ جن کو میں جانتا ہوں اور جو ان کی مراد ہے ان کو جانتا ہوں اور میں نے پہچان لیا اور میں نے ایسی چیزوں سنا ہے کہ جن کا نہ میں معنی جانتا ہوں اور نہ ان کی مراد سمجھتا ہوں اخنس نے کہا میری بھی یہی کیفیت ہے قسم ہے اس ذات کی جس کی میں نے قسم کھائی ہے پھر وہ اخنس سے نکل کر ابوجہل کے پاس آگیا اور اس نے کہا کہ تیری کیا رائے ہے اس رائے اس (کلام) کے بارے میں جو تو نے محمد ﷺ سے سنی ہے اس نے کہا میں نے کیا سنا ہم نے اور بنوعبد مناف نے بزرگی اور شرف میں جھگڑا کیا انہوں نے ان کو کھلا یا اور ہم نے بھی کھلایا انہوں نے سواریوں پر سوار کیا تو اہم نے بھی سوار کیا اور انہوں نے (غریبوں) کو دیا ہم نے بھی دیا یہاں تک کہ جب ہم سواریوں پر سوار ہوگئے اور ہمارے گھوڑے شرط پر دوڑنے والے گھوڑوں کی طرح تھے انہوں نے کہا ہم میں سے ایک نبی ہے جن کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے تو ہم یہ کیسے پاسکتے تھے اللہ کی قسم ہم کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے اور ہم اس کی تصدیق نہیں کریں گے اخنس (یہ سن کر) واپس آگیا اور اس کو چھوڑدیا۔ (واللہ اعلم )
Top