Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 17
وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ
وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن تَرَى : تم دیکھو گے الَّذِيْنَ كَذَبُوْا : جن لوگوں نے جھوٹ بولا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وُجُوْهُهُمْ : ان کے چہرے مُّسْوَدَّةٌ ۭ : سیاہ اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ : میں جَهَنَّمَ : جہنم مَثْوًى : ٹھکانا لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ : تکبر کرنے والے
پھر اس نے ان کی طرف سے ایک پردہ بنالیا تو ہم نے اس کی طرف اپنا خاص فرشتہ بھیجا تو اس نے اس کے لیے ایک پورے انسان کی شکل اختیار کی۔
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا : ایام سے فارغ ہونے پر غسل کے لیے پردہ تان لیا، یا عبادت میں مکمل تنہائی کے لیے۔ فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا : روح سے مراد یہاں جبریل ؑ ہیں، جیسا کہ سورة شعراء (193) اور سورة قدر (4) میں انھی کے متعلق روح کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ ہر روح کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر جبریل ؑ کو خاص طور پر اپنا قرار دینے میں ان کی شان کی بلندی کا اظہار ہے، جیسا کہ ہر گھر اور ہر اونٹنی اللہ کی ملکیت ہے، مگر بیت اللہ اور ناقۃ اللہ کی شان انوکھی ہے۔ اس لیے ”رُوْحَنَا“ کا ترجمہ ”اپنا خاص فرشتہ“ کیا ہے۔ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا : ”سَوِيًّا“ پورے اعضا والا تندرست (انسان)۔ جبریل ؑ انسان کی شکل میں اس لیے آئے کہ مریم [ کے لیے انھیں ان کی اصل صورت میں دیکھنا شدید خوف کا باعث یا ناقابل برداشت ہوتا۔ ہمارے نبی ﷺ نے بھی اپنی زندگی میں جبریل ؑ کو ان کی اصل صورت میں صرف دو بار دیکھا ہے۔ دیکھیے سورة نجم (5 تا 18) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اپنی شکل بدل سکتے ہیں۔
Top