Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے کہا اس بستی میں داخل ہوجاؤ، پس اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ اور کہو بخش دے، تو ہم تمہیں تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کو جلد ہی زیادہ دیں گے۔
اس شہر سے مراد کون سا شہر ہے، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے اریحاء شہر مراد ہے۔ مگر یہ بعید ہے، کیونکہ اس وقت بنی اسرائیل بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے اور یہ اس راستے پر نہیں ہے اور بعض نے فرعون والا مصر مراد لیا ہے، یہ قول اس سے بھی زیادہ بعید ہے۔ زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے، جیسا کہ سورة مائدہ (21) میں ہے : (يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ)”اے میری قوم ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔“ (ابن کثیر) یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو موسیٰ ؑ کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہوسکا، حالانکہ ”فبدل“ کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فوراً شہر میں چلے گئے۔ رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ ؑ کی زبانی دیا گیا ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ یوشع بن نون ؑ کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو انھیں حکم دیا گیا ہو کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہوں۔ ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو سورة نصر میں فتح کے موقع پر تسبیح و استغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آپ ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نماز فتح (آٹھ رکعات) ادا کی ہے۔ (وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ) یعنی گناہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے۔ احسان کا معنی خالص اللہ کے لیے عمل کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ سے احسان کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) ”اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو یقیناً وہ تمہیں دیکھتا ہے۔“ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی ﷺ۔۔ : 50، عن عمر ؓ ]
Top