Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخشدے تو معاف کردیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو
خلاصہ تفسیر
اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب ہم نے حکم کیا کہ تم لوگ اس آبادی کے اندر داخل ہو پھر کھاؤ اس کی چیزوں میں جس جگہ تم رغبت کرو بےتکلفی سے اور (یہ بھی حکم دیا کہ جب اندر جانے لگو تو) دروازہ میں داخل ہونا (عاجزی سے) جھکے جھکے اور (زبان سے یہ) کہتے جانا کہ توبہ ہے (تو یہ ہے) ہم معاف کردیں گے تمہاری (پچھلی) خطائیں (توسب کی) اور مزید برآں اور دیں گے دل سے نیک کام کرنے والوں کو،
فائدہبقول شاہ عبد القادر صاحب یہ قصہ بھی زمانہ وادی تیہ کا ہے کہ جب من وسلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے اور اپنے معمولی کھانے کی درخواست کی (جیسا آگے کی چوتھی آیت میں آرہا ہے) تو ان کو ایک شہر میں جانے کا حکم ہوا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی اور معمولی چیزیں ملیں گی سو یہ حکم اس شہر کے اندر جانے کے متعلق ہے اس میں قولی اور فعلی ادب داخل ہونے کے متعلق بیان کیا گیا اور اندر جاکر کھانے پینے میں توسیع کی گئی اس قول پر بہت سے بہت یہ کہا جاسکے گا کہ قصہ کے بیان میں تقدم وتأخر ہوگیا کہ بعد کا قصہ پہلے بیان ہوا اور پہلے کا بعد میں تو یہ اشکال اس وقت ہوتا جب قرآن مجید میں خود قصوں کا بیان کرنا مقصود اصلی ہوتا اور جب نظر نتائج پر ہے تو اگر ایک قصہ کے اجزا میں ہر جزو کا نتیجہ جدا ہو اور ان نتائج کے کسی اثر کا لحاظ کرکے جزو مقدم کو مؤ خر اور جزو مؤ خر کو مقدم کردیا جائے تو اس میں نہ کوئی مضائقہ ہے اور نہ کوئی اشکال،
دیگر مفسرین حضرات نے اس حکم کو اس شہر سے متعلق سمجھا ہے جس پر جہاد کرنے کا حکم ہوا تھا اور بعد مدت تیہ کے پھر اس پر جہاد ہوا اور وہ فتح ہوا اس وقت یوشع ؑ نبی تھے یہ حکم ان کی معرفت اس شہر کے بارے میں ہوا تھا،
قول اول کی بناء پر پچھلی خطاؤں میں وہ درخواست بھی داخل کرلینا مناسب ہے جو من وسلویٰ چھوڑ کر معمولی کھانوں کے متعلق کی گئی تھی مطلب یہ ہوگا کہ درخواست تھی تو گستاخی لیکن خیر اب اگر اس ادب اور حکم کو بجا لائے تو اس کو معاف کردیں گے اور ہر قول پر یہ معافی تو سب کہنے والوں کے لئے عام ہوگی اور جو اخلاص سے اعمال صالحہ کریں گے ان کا انعام اس کے علاوہ ہے،
Top