Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور نصاریٰ اور صابی، جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اس آیت سے پہلی آیات اور اس کے بعد والی آیات میں بنی اسرائیل پر انعامات اور ان کے مقابلے میں ان کے اعمال بد کا تذکرہ ہے۔ یہ آیت درمیان میں ایک خاص مناسبت کی بنا پر آئی ہے، وہ یہ کہ جب بات ان پر ذلت و مسکنت مسلط ہونے اور اللہ کے غضب کا نشانہ بننے تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق ان کے لیے اپنی رحمت کا تذکرہ ضروری سمجھا کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد اس ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کا نشانہ نہیں، پہلے بھی اللہ تعالیٰ بیحد مہربان تھا اور توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوگا، خواہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہو، جیسے آپ سے پہلے اپنے اپنے انبیاء پر ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ ہوں، یا آپ کے زمانے میں یہود و نصاریٰ میں سے ایمان لانے والے ہوں، مثلاً عبداللہ بن سلام، صہیب اور سلمان ؓ ، سب کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ یہود و نصاریٰ کو مزید مانوس کرنے کے لیے مسلمانوں اور صابئین کا بھی ساتھ ذکر کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی خاص نسل کے ساتھ مخصوص نہیں، شرط صرف ایمان اور عمل صالح ہے۔ [ التحریر والتنویر ] بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب بھی اگر عیسائی، یہودی اور صابی اپنے اپنے مذہب پر رہ کر عمل صالح کریں، تو مسلمانوں کی طرح ان کی بھی نجات ہوجائے گی، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ تورات و انجیل میں بنی اسرائیل کو صاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے۔ حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (157) اور سورة صف (6) کے حواشی۔ اب اگر ان میں سے کوئی شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لاتا تو اس کا تورات و انجیل پر بھی ایمان نہیں، وہ کیسے نجات پاسکتا ہے ؟ (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ) [ آل عمران : 85 ] ”اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔“ اس آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے، ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لاَ یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہٖ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ۔۔ : 153 ] ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میرے بارے میں سن لے، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے مگر وہ آگ میں داخل ہوگا۔“ (وَالصّٰبِـــِٕيْنَ) یہ ”صَابِئٌ“ کی جمع ہے، اس کا مادہ ص، ب، ء ہے، جو شخص ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکل جائے، گویا یہ ”صَبَأَ نَابُ الْبَعِیْرِ“ سے ہے، جس کا معنی ہے اونٹ کی کچلی نکل آئی۔ ایک قراءت میں ”صابین“ ہے، وہ اسی ”صابئین“ میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ ”صَبَا یَصْبُوْ“ سے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہوگیا۔ (راغب) اسی لیے جو شخص مسلمان ہوتا کفار قریش اسے صابی کہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے، یہود و نصاریٰ کی طرح یہ لوگ بھی آسمانی دین پر تھے، اس لیے اس آیت میں ان کے ساتھ ان کا ذکر ہوا، بعد میں ان کے اندر بگاڑ پیدا ہوگیا اور وہ ستاروں کی پرستش کرنے لگے۔ یہ لوگ اپنے مذہب کو حد درجہ چھپاتے تھے، شیعہ اسماعیلیہ نے مذہب کو چھپانا انہی سے لیا ہے۔ ان کے اہل کتاب ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ [ تفصیل کے لیے دیکھیے : جصاص، الفہرست لابن ندیم، الملل والنحل ]
Top