Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کیا ہیں یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟
اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ۔۔ : ”التَّـمَاثِيْلُ“ ”تِمْثَالٌ“ کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کی مثل بنائی ہوئی صورت، مجسمہ۔ بت پرست عموماً انسانوں کے مجسموں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ سمجھ بوجھ جو موسیٰ ؑ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو عطا فرمائی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا حق ہونا اور بتوں اور دوسرے تمام معبودوں کا باطل ہونا۔ ابراہیم ؑ کی قوم بت پرست بھی تھی، ستارے، چاند اور سورج کی پرستش بھی کرتی تھی اور بادشاہ کو بھی رب مانتی تھی۔ ستارے، چاند اور سورج کے معبود نہ ہونے کے لیے ابراہیم ؑ کی نہایت مدلل، مؤثر اور لاجواب دعوت سورة انعام (76 تا 83) میں ملاحظہ فرمائیں۔ بادشاہ کے رب نہ ہونے کی دعوت سورة بقرہ (258) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں بتوں کے بےاختیار ہونے کی تبلیغ اور اس کا عملی اظہار فرمایا ہے۔ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِيْلُ۔۔ : ”هٰذِهِ“ کا اشارہ بتوں کی تحقیر کے لیے ہے۔ ابراہیم ؑ نے نادان بنتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی قوم سے بتوں کا تذکرہ نہایت تحقیر کے ساتھ کرتے ہوئے پوچھا : ”یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو، کیا چیز ہیں ؟“ گویا ابراہیم ؑ ان کو کوئی چیز ماننے ہی پر تیار نہ تھے، کیونکہ وہ نہ سنتے تھے اور نہ کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے تھے۔ دیکھیے سورة مریم (42)۔
Top