Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور بلاشبہ یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم اسے جاننے والے تھے۔
وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ۔۔ : ”رُشْدٌ“ ہدایت اور سیدھا راستہ، یہ لفظ ”غَیٌّ“ کے مقابلے میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ) [ البقرۃ : 256 ] ”بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہوچکی۔“ اور سمجھ بوجھ اور ہوش مندی کے معنی میں بھی، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا) [ النساء : 6 ] ”پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھ داری معلوم کرو۔“ ”رُشْدَهٗ“ یعنی وہ سمجھ بوجھ جو اس کے لائق تھی۔ مِنْ قَبْلُ : یعنی موسیٰ اور ہارون ؑ سے پہلے یا نبوت عطا کرنے سے پہلے۔ بعض نے کہا غار سے نکلنے کے بعد۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (75 تا 79)۔ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ : یعنی ہم اسے جانتے تھے کہ ہم نے اس میں کیا کیا خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی تھیں۔ ابراہیم ؑ کی جتنی بھی خوبیاں بیان کرلی جائیں اللہ تعالیٰ کی یہ شہادت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ منصب عطا ہی اسے ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں اس کا اہل ہو، فرمایا : (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ) [ الأنعام : 124 ] ”اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔“
Top