Al-Quran-al-Kareem - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور لازم ہے اس بستی پر جسے ہم ہلاک کردیں کہ بیشک وہ واپس نہیں لوٹیں گے۔
وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ۔۔ : اس آیت کے تین معنی ہوسکتے ہیں اور تینوں درست ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اعجاز ہے کہ ایک آیت کئی معانی کی گنجائش رکھتی ہے۔ پہلے معنی کی صورت میں ”وَحَرٰمٌ“ کا معنی ”ممنوع“ اور ”ناممکن“ ہے اور ”لَا يَرْجِعُوْنَ“ میں ”لَا“ کا حرف زائد ہے، نفی کا معنی نہیں دے رہا، مگر بےفائدہ نہیں بلکہ ”حَرٰمٌ“ کے معنی میں جو نفی پائی جاتی ہے اس میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا : (مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ) [ ص : 75 ] ”تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ کرے ؟“ دوسری جگہ فرمایا : (مَا مَنَعَكَ اَ لَّا تَسْجُدَ) [ الأعراف : 12 ] ”تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا ؟“ اس سے ظاہر ہے کہ ”اَ لَّا تَسْجُدَ“ میں ”لاَ“ زائد ہے اور ”مَنَعَکَ“ کے معنی میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں ناممکن ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس لوٹیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ) [ یٰسٓ : 31 ] ”کیا انھوں نے نہیں دیکھا، ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے کہ وہ ان کی طرف پلٹ کر نہیں آتے۔“ دوسرے معنی کی صورت میں ”حَرٰمٌ“ کا معنی ”ممنوع“ اور ”ناممکن“ ہی ہوگا، مگر ”لَا يَرْجِعُوْنَ“ میں ”لَا“ نفی کے معنی میں ہوگا جو اس کا اصل ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں، ناممکن ہے کہ وہ (قیامت کے دن ہماری طرف) واپس نہ آئیں، بلکہ وہ ضرور ہماری طرف واپس لوٹیں گے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یہاں ”حَرٰمْ“ کا لفظ لازم اور واجب کے معنی میں ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے ابن عباس ؓ سے نقل فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے فتح الباری (11؍503) اس صورت میں معنی یہ ہے کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں لازم ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس نہیں لوٹیں گے۔ ابن کثیر ؓ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے۔ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ; نے بھی اسی مفہوم کو اختیار فرمایا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تینوں معنوں کا نتیجہ ایک ہی ہے، البتہ اس میں سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً بنی اسرائیل کا مقتول جو گائے کا کوئی حصہ مارنے سے زندہ ہوا وغیرہ۔
Top