بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔ یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ۔۔ : سورت کا آغاز رسول اللہ ﷺ کو ”يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ“ کے خطاب سے ہوتا ہے۔ اس میں آپ ﷺ کی تکریم و تشریف مقصود ہے، کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کو ان کے ناموں کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، جیسا کہ ”یَاٰدَم، ینوح، یابراھیم، یعیسیٰ“ وغیرہ، مگر آپ ﷺ کو ”يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ“ اور ”يٰٓاَيُّهَا الرسول“ کے ساتھ ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ 3 اس سورت میں آپ ﷺ کو پانچ دفعہ ”يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ“ کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے، ایک یہ آیت، دوسری آیت (28) : (ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا) ، تیسری آیت (45) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا) ، چوتھی آیت (50) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ) اور پانچویں آیت (59) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ) اس سے ظاہر ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ ﷺ کے ذاتی معاملات کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اگرچہ مقصود امت کی تعلیم بھی ہے۔ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ : یہ سورت سن پانچ ہجری کے آخر میں غزوۂ احزاب کے زمانے میں نازل ہوئی۔ یہ وقت رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر نہایت مشکل اور آزمائش کا تھا، کیونکہ قریش، غطفان، ہذیل اور پورے عرب کے مشرکین مل کر اسلام کو مٹانے کی آخری کوشش کے لیے دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان کی مدد مدینہ کے یہود اور منافقین بھی کر رہے تھے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اسی زمانے میں آپ ﷺ کو زمانۂ جاہلیت کی کچھ ایسی رسوم کو توڑنے کا حکم ہوا جو اس وقت سب لوگوں کے ہاں مسلّمہ تھیں، مثلاً بیوی کو ماں کہہ دیا جائے تو اسے ماں ہی کی طرح حرام سمجھنا، منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دے کر وارث بنانا، اس کی بیوی کے ساتھ بہو کی طرح نکاح حرام سمجھنا وغیرہ۔ متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنانے کی یہ رسم اتنی مستحکم تھی کہ جب تک رسول اللہ ﷺ خود اپنے عمل سے اسے نہ توڑتے اس کا ختم ہونا مشکل تھا۔ آپ ﷺ نے نبوت سے پہلے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ جاہلیت کی رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ غلام آزاد بھی ہوجائے تو وہ اسے حقیر ہی سمجھتے اور آزاد لوگوں کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے اس رسم کو توڑا اور اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش ؓ کا نکاح، جو نہایت عالی خاندان سے تھیں، اپنے آزاد کردہ غلام زید ؓ کے ساتھ کردیا، مگر دونوں میں موافقت نہ ہوسکی، تو زید ؓ نے اسے طلاق دے دی۔ اب آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ زینب ؓ سے نکاح کرلیں، کیونکہ اس نے زید سے نکاح کرکے بہت بڑی قربانی دی تھی اور اس کی دل جوئی بھی مقصود تھی۔ مگر ڈر یہ تھا کہ پورے عرب کے مشرکین اور منافقین اس پر طعن و تشنیع کا طوفان برپا کردیں گے کہ محمد ﷺ بہو سے نکاح کو حرام کہتے ہیں اور خود بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویوں سے نکاح جائز تھا، اگر آپ ﷺ زینب سے نکاح کرتے تو یہ پانچویں بیوی ہوتی، کیونکہ اس سے پہلے سودہ، عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ آپ کے نکاح میں تھیں۔ اس پر بھی کفار و منافقین کو طعن کا موقع ملتا، اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ”يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ۔۔“ کہہ کر زیادہ بیویاں رکھنے کی خصوصی اجازت عطا فرمائی۔ غرض اس قسم کی کئی باتوں کی اصلاح کرنا تھی، مگر آپ ﷺ کفار و منافقین کے طوفان اٹھانے کے خوف سے انقباض محسوس کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز ہی اس بات سے کیا : ”اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔“ یہ لمبی بات کو مختصر کرنے کی ایک خوب صورت مثال ہے، جو یہ تھی کہ اللہ سے ڈر، کفار و منافقین یا کسی اور سے مت ڈر اور اللہ کا حکم مان اور کفار و منافقین کا کہنا مت مان۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا :”اِنَّ“ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ کسی بات کی وجہ بیان کرتا ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھنے والا، کمال حکمت والا ہے“ یعنی اس کے احکام، علم و حکمت پر مبنی ہیں، جب کہ کفار کے رسوم و رواج اور ضابطوں کی بنیاد وہم و گمان، جہل اور بےوقوفی پر ہے۔ آگے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ منہ سے کہہ دینے سے کوئی عورت ماں نہیں بن جاتی، نہ کوئی شخص منہ سے کہہ دینے سے بیٹا بن جاتا ہے۔ وہ تقدیس جو حقیقی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے رشتے میں ہوتی ہے، مصنوعی رشتے میں کبھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ رشتے عام میل ملاپ کی وجہ سے برائی پھیلنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے کسی کافر یا منافق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ایک اللہ سے ڈریں اور اسی کا حکم مان کر جاہلیت کی ان تمام رسوم کا خاتمہ کردیں۔ 3 اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے امت کو تنبیہ کی مؤثر ترین صورت اختیار فرمائی گئی ہے کہ جب یہ حکم سب سے بڑے شخص کو ہے تو دوسروں کے لیے تو اس کی تاکید اس سے بھی زیادہ ہے۔
Top