Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 56
اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ
اَنْ تَقُوْلَ : کہ کہے نَفْسٌ : کوئی شخص يّٰحَسْرَتٰى : ہائے افسوس عَلٰي : اس پر مَا فَرَّطْتُّ : جو میں نے کوتاہی کی فِيْ : میں جَنْۢبِ اللّٰهِ : اللہ کا حق وَاِنْ كُنْتُ : اور یہ کہ میں لَمِنَ : البتہ۔ سے السّٰخِرِيْنَ : ہنسی اڑانے والے
(ایسا نہ ہو) کہ کوئی شخص کہے ہائے افسوس ! اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی اور بیشک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔
اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى۔۔ : ”ان“ سے مراد ”لِءَلَّا“ ہے، جیسا کہ سورة نحل کی آیت (15) میں ہے : (وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ“ ”اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے، تاکہ وہ تمہیں ہلا نہ دے۔“ ”يّٰحَسْرَتٰى‘ اصل میں ”حَسْرَۃٌ“ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے، جسے ”الف“ میں بدل دیا ہے۔ حسرت شدید پشیمانی اور افسوس کو کہتے ہیں، ہائے میرا افسوس ! ”فَرَّطْتُّ“ ”فَرَّطَ یُفَرِّطُ تَفْرِیْطًا“ کوتاہی کرنا اور ”أَفْرَطَ یُفْرِطُ إِفْرَاطًا“ زیادتی کرنا۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ ہائے میرا افسوس ! میری اس کوتاہی اور نافرمانی پر جو میں ساری کائنات کے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے سامنے کرتا رہا، جو کسی چیز سے بیخبر نہیں۔ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ : ”ان“ اصل میں ”إِنِّيْ“ ہے۔ ”إِنَّ“ کے نون کو ساکن اور اس کے اسم ”یائے متکلم“ کو حذف کردیا۔ دلیل اس کی ”لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ ‘ پر آنے والا لام ہے، اور بیشک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔ یعنی افسوس ! میں نے صرف نافرمانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر مذاق اڑانے میں بھی شریک رہا۔ ظاہر ہے اجتماعی طور پر مذاق اڑانے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اور زیادہ مخالفت ہے۔ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ ”قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا“ سے لے کر سلسلہ کلام کفار کے متعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور قیامت کا مذاق وہی اڑاتے ہیں۔ مومن کیسا بھی بدعمل ہو اس کا ایمان اسے مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیتا۔
Top