Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 73
ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَۙ
ثُمَّ : پھر قِيْلَ : کہا جائے گا لَهُمْ : ان کو اَيْنَ : کہاں مَا كُنْتُمْ : جن کو تم تھے تُشْرِكُوْنَ : شریک کرتے
پھر ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جو تم شریک ٹھہراتے تھے ؟
(1) ثم قیل لھم این ماکنتم تشرکون من دون اللہ : پھر انہیں ذلیل کرنے کے لئے اور ان کے خود ساختہ مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کی بےبسی واضح کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کے سوا شریک بناتے تھیڈ اگر وہ واقعی شریک تھے اور تم اس لئے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ مشکل وقت میں تمہاری دستگیری کریں گے تو لاؤ وہ کہاں ہیں، تمہاری مدد کیوں نہیں کر رہے ؟ (2) قالوا صلوا عنا : یہ انسانی ضمیر کا اصل سچ ہے، اس کے مطابق پہلے وہ بےاختیار قرار کریں گے کہ وہ ہم سے گم ہوگئے ، نہ کہیں ملتے ہیں نہ دکھائی دیتے ہیں۔ (3) بل لم نکن ندعوا من قبل شیاً پھر یہ سوچیں گے کہ یہ کہنا کہ وہ ہم سے گم ہوگئے ہیں، یہ تو اعراف ہے کہ واقعی ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارتے رہے ہیں اور ہمارا یہ اعتراف ہمارے خلاف شہادت بن رہا ہے۔ چناچہ طبیعت کی کمینگی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے اسی قدم پر اس اعترضا سے پھر جایئں گے اور صاف جھوٹ بول دیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات تو ویسے ہی ہمارے منہ سے نکل گئی، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم کسی بھی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر دنیا میں اپنے شرک کرنے سے انکار کردیں گے، فرمایا :(ویوم نحشرھم جمیعاً ثم نقول الذین اشرکوا این شرکآء کم الذین کنتم ترعمون ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالوا واللہ ربنا ما کنا مشرکین انظر کیف کذبوا علی انفسھم وضل عنھم ماکانوا یفترون) (الانعام : 22 تا 37) ”اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جنہوں نے شریک بنائے، کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جنہیں تم گمان کرتے تھے۔ پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم ! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ دیکھ انہوں نے کیسے اپنے آپ پر جھوٹ بولا اور ان سے گم ہوگیا جو وہ جھوٹ بنایا کرتے تھے۔ (4) کذلک یضل اللہ الکفرین : ایسے ہی اللہ کافروں کو گمراہ اور حواس باختہ کردیتا ہے، ان کے منہ سے کبھی کچھ نکلتا ہے کبھی کچھ۔ وہ ایک بات کہتے ہیں پھر خود ہی اس سے ٹکر جاتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر ؒ نے ایک اور تفسیر کی ہے، وہ بھی بہت عمدہ ہے، فرماتے ہیں :”اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شریک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاوے گا، پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا (پھسلا دیا، بھلا دیا) اپنی حکمت سے۔“ (موضح) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے انہیں ان کے انکار سے پھسلا کر ان کے منہ سے شرک کرنے کا اقرار کروا لیا۔ (5) ایک تفسیر اس آیت کی یہ ہے کہ وہ پہلے کہیں گے کہ ہم جنہیں پکارتے تھے وہ ہم سے گم ہوگئے، پھر کہیں گے، اصل بات یہ ہے کہ ہم جنہیں پکارتے رہے وہ کوئی شے ہی نہ تھے، نہ کہیں ان کا وجود تھا، بلکہ ہم محض ”لا شیء“ کو اور اپنے وہم و گمان کو پوجتے اور پکارتے رہے ہیں۔ اگر فی الواقع ان کا وجود ہوتا تو آج وہ کہیں مل جاتے یا ہمارے کام آتے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما یتبغ الذین یدعون من دون اللہ شرکآء ان یتبعون الا الظن وان ھم الا یخرضون) (یونس : 66)”اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔“ اور فرمایا :(ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس) (النجم : 23)”یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔“”لا شیء حتی تقیموا الثوریۃ ولانجیل وما انزل الیکم من ربکم) (المائدۃ : 68)”کہہ دے اے اہل کتاب ! تم کسی چیز پر نہیں ہو، یہاں تک کہ تم رات اور انجیل کو قائم کرو اور اس کو جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا۔“
Top